مرے لوگو!
سنو، حالات کے مارے ہوئے لوگو!
وطن میں چار سو پھیلی
فضائے بدگمانی،غربت و افلاس ،
بد امنی سے تم نومید مت ہونا
یہ جو قلب و نظر میں ٹوٹتی امید کے لرزاں دیے
آلام کے طوفاں کی زد میں ہیں
انہیں بجھنے نہ تم دینا
وہی ارضِ وطن ہے یہ۔۔۔
جہاں پرکھوں نے خود اپنے لہو سے
فکرِ نو کے نام اک تحریر لکھی تھی
نئی آزاد صبحوں کی حسیں تقدیر لکھی تھی!
فضاؤں میں ابھی بھی ان پرستارانِ حر کے نعرۂ تکبیرکی تاثیر باقی ہے
مگر اک خواب جو دیکھا کئی بے چین آنکھوں نے
(ابھی اس خواب کی تعبیر ادھوری ہے)
اسی تعبیر کی تکمیل باقی ہے!۔
یہ دھرتی پھر ہمیں آواز دیتی ہے
مرے لوگو!
مرے دیوار و در کی خستگی کی خیر
ہمیں اس گھر کی دیواروں کو یوں مسمار ہونے سے بچانا ہے
کہ خشتِ عزم سے اس کی فصیلوں کی
نئی تعمیر باقی ہے
میرے پرچم کی پیشانی پہ اب بھی
بخت کا تارادمکتا ہے
ہمیں اس کو کبھی بھی سرنِگوں ہونے نہیں دینا
مرے لوگو! کبھی نومید مت ہونا
مصائب کی شبِ تاریک سے اک دن
کبھی تو صبحِ نو کا،آس کا سورج نکلنا ہے
کبھی تو وقت کی بےرحم موجوں کا
ہمیں دھارا بدلنا ہے
تبھی تعمیرِ ملک و قوم کے اس خواب کو
تعبیر کا اعزاز ملنا ہے!
نورالعین عینی
Leave a Reply