Today ePaper
Rahbar e Kisan International

تعویذ، جھاڑ پھونک اور پلیس بوئی اثر: تاریخ، مذہب اور سائنس کی روشنی میں

Articles , Snippets , / Friday, October 10th, 2025

rki.news

تحریر: ڈاکٹر منور احمد کنڈے۔ ٹیلفورڈ۔ انگلینڈ۔

تعویذ گنڈوں اور جھاڑ پھونک سے علاج کی تاریخ انسانی تہذیب کے ابتدائی دور سے جڑی ہوئی ہے۔ جب انسان نے بیماریوں، حادثات اور فطری آفات کا سامنا کیا تو وہ ان قوتوں کو سمجھنے سے قاصر تھا جو اس کے اردگرد کارفرما تھیں۔ علم طب کی سائنسی بنیادیں قائم ہونے سے پہلے انسان نے بیماریوں کو ماورائی اثرات، بدروحوں، جنات یا نظرِ بد کا نتیجہ سمجھا۔ یہی تصورات آہستہ آہستہ مختلف معاشروں میں جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈوں کی صورت اختیار کر گئے۔
قدیم تہذیبوں میں مذہب اور طب ایک دوسرے سے جدا نہ تھے۔ مصر، بابل اور یونان میں پجاری اور کاہن بیماریوں کے علاج کے ساتھ ساتھ تعویذی نسخے بھی تجویز کرتے تھے۔ مصری قبروں سے ملنے والے پاپائرس اور زیورات میں ایسے تعویذ پائے گئے ہیں جن پر مقدس کلمات یا علامات کندہ تھیں، جنہیں پہننے والا خود کو بیماری اور بدروحوں سے محفوظ سمجھتا تھا۔ یونانی اور رومی تہذیب میں بھی مقدس کلمات یا دیوتاؤں کے نام پر مبنی کڑیاں اور دھاگے استعمال کیے جاتے تھے۔ اسی طرح ہندو اور بدھ مت روایات میں منتر اور دھاگے کا بڑا کردار رہا ہے جنہیں بدن پر باندھنے سے بیماریوں کے دور ہونے کا عقیدہ عام تھا۔
اسلام سے قبل عرب معاشرہ بھی ایسے تصورات سے بھرپور تھا۔ جاہلی دور میں لوگ بیماریوں یا آفات سے بچنے کے لیے ہڈیاں، منکے اور لکھے ہوئے کلمات کو بطور تعویذ گلے میں ڈالتے تھے۔ اسلام کے ظہور کے بعد اس طرزِ عمل کو ایک نئے زاویے سے دیکھا گیا۔ قرآن و حدیث میں جھاڑ پھونک یعنی “رقیہ” کا ذکر موجود ہے، لیکن اس کی شرط یہ رکھی گئی کہ وہ شرکیہ نہ ہو بلکہ اللہ کے کلام اور جائز دعاؤں پر مبنی ہو۔ تعویذ کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف پایا گیا۔ بعض نے اسے ناجائز قرار دیا جبکہ بعض نے قرآن و حدیث کے الفاظ پر مشتمل تعویذ کو جائز مانا۔
برصغیر میں جھاڑ پھونک اور تعویذ کا رواج قدیم زمانے سے ہے۔ ہندو روایات میں منتر اور جپ کا استعمال عام تھا جبکہ مسلمان علما اور صوفیہ نے قرآنی آیات اور دعاؤں کے ذریعے جھاڑ پھونک کو رواج دیا۔ صوفیا کے ہاں یہ عقیدہ عام ہوا کہ ان کی دم کردہ تسبیح یا پانی مریض کے لیے شفا ہے۔ اسی طرح لکھے ہوئے قرآنی کلمات کو تعویذ میں ڈال کر گلے یا بازو پر باندھنے کی روایت بھی قائم ہوئی۔ عوامی سطح پر یہ علاج اتنا راسخ ہوا کہ لوگ بیماریوں کے ساتھ ساتھ روزمرہ مشکلات کے حل کے لیے بھی انہی ذرائع کا سہارا لینے لگے۔
یورپ میں قرون وسطیٰ کے دوران چرچ کے پادری مقدس پانی اور صلیب کے ذریعے جھاڑ پھونک کرتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ بیماری شیطانی اثر یا بدروح کی وجہ سے ہے جسے مقدس کلمات سے نکالا جا سکتا ہے۔ بعد کے ادوار میں جب سائنسی طب نے ترقی کی اور بیماریوں کے اسباب کو جراثیم، ماحول اور جسمانی عوامل سے جوڑا گیا تو جھاڑ پھونک اور تعویذ کا رواج کم ہوا، مگر عوامی عقائد اور روایتی معالجین کی وجہ سے یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہو سکا۔
آج بھی دنیا کے کئی حصوں میں تعویذ گنڈے اور جھاڑ پھونک کو شفا کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ بعض لوگ اسے روحانی سکون اور نفسیاتی سہارا قرار دیتے ہیں جبکہ کچھ حلقے اسے توہم پرستی سمجھتے ہیں۔ جدید تحقیق یہ بتاتی ہے کہ کئی بار جھاڑ پھونک اور تعویذ کا اثر نفسیاتی طور پر ہوتا ہے، یعنی مریض کے ذہن میں یہ یقین پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ صحت یاب ہو رہا ہے اور یہی یقین اس کی حالت میں بہتری لاتا ہے۔
پلیس بوئی اثر (Placebo Effect) اس رجحان کی سائنسی وضاحت فراہم کرتا ہے۔ پلیس بوئی اثر کا مطلب یہ ہے کہ اگر مریض کو یقین ہو کہ وہ علاج لے رہا ہے تو خواہ وہ علاج حقیقی دوا نہ بھی ہو، اس کے جسم میں بہتری کے آثار پیدا ہو جاتے ہیں۔ دماغ اس یقین کے باعث خوشی کے ہارمون خارج کرتا ہے، مدافعتی نظام کو متحرک کرتا ہے اور درد یا تکلیف کی شدت کو کم کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی بار جھاڑ پھونک یا تعویذ استعمال کرنے والے مریض کو حقیقی سکون اور افاقہ محسوس ہوتا ہے، حالانکہ طبی بنیاد پر اس کا کوئی براہِ راست اثر نہیں ہوتا۔
میڈیکل ریسرچ کی مثالیں اس تصور کو مزید واضح کرتی ہیں۔ امریکہ اور یورپ میں کی جانے والی اسٹڈیز میں مریضوں کو فرضی دوا (شوگر پل) دی گئی، مگر بتایا گیا کہ یہ اصلی دوا ہے۔ کئی مریضوں نے درد، دباؤ اور بیماری کی علامات میں کمی محسوس کی۔ 2001 میں “نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن” میں شائع تحقیق کے مطابق گھٹنے کے آپریشن میں بعض مریضوں پر صرف ظاہری چیرا لگایا گیا لیکن اصل آپریشن نہیں ہوا۔ حیرت انگیز طور پر ان کی صحت میں بھی اتنی ہی بہتری آئی جتنی اصل آپریشن والے مریضوں کی۔ اسی طرح ذہنی امراض جیسے ڈپریشن اور بے خوابی میں بھی پلیس بوئی دوا کے اثرات حقیقی دوا سے قریب تر پائے گئے۔
یہ سب نتائج اس بات کا ثبوت ہیں کہ انسانی ذہن کی قوت اور یقین بیماری سے مقابلے میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جھاڑ پھونک اور تعویذ اگرچہ براہِ راست بیماری کو ختم نہ بھی کریں، لیکن مریض کو امید، حوصلہ اور سکون ضرور دیتے ہیں۔ یہی عوامل صحت یابی کے سفر میں غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں۔
یوں تعویذ گنڈوں اور جھاڑ پھونک کی تاریخ دراصل انسان کے خوف، امید اور عقیدے کی تاریخ ہے۔ یہ انسان کی اس جدوجہد کا حصہ ہے جس میں وہ اپنے دکھوں اور بیماریوں کے لیے کسی نہ کسی ماورائی سہارا تلاش کرتا رہا ہے۔ سائنسی دور میں بھی یہ رجحان اس بات کی علامت ہے کہ انسان صرف جسمانی علاج ہی نہیں بلکہ روحانی و نفسیاتی سکون کا بھی طلبگار ہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International