Today ePaper
Rahbar e Kisan International

{تقدیم و تاخیر۔حاسد اورحسد کی آگ۔ ہجویہ نظم یا ایٹم بم}

Literature - جہانِ ادب , Snippets , / Tuesday, April 15th, 2025

rki.news

تقدیم و تاخیر کو بہانہ بنا کر ہماری تذلیل کرنے کے منصوبے کو شہر کے سنجیدہ ادب دوست احباب نے سخت ناپسند کیا۔
شعراء کی فہرست میں حسبِ سابق ہمیں کافی بعد میں پڑھوائے جانے کا سلسلہ جاری رہا۔ حاسدوں کی تمام تر کوششیں ناکام ہوگئیں۔ طرحی مشاعروں میں مزید قلعی کھلتی رہی۔ بڑے بڑے بت سرنگوں ہوتے دیکھے۔ حاسدین اپنا سا منہ لے کے رہ گئے:

دیمک کی طرح چاٹ گئی آگ حسد کی
جل جل کے بکھرتے ہیں شجر راکھ کی صورت
(ف ن خ)

جیسا کہ میں نے پچھلی قسط میں بیان کیا تھا کہ ایک ایٹم بم ہجویہ نظم کی صورت میں سید تعظیم حسین نقوی کی رہائش گاہ میں جاگرا تھا۔ قبل اس کے وہ دھماکے سے پھٹتا سید صاحب نے فوری طور ایک شعری نشست کا اہتمام کیا۔ شہر کے تمام شعراء مدعو کیے گئے تھے۔ ہمیں والد صاحب نے شرکت سے منع کردیا۔
انہیں اندیشہ تھا کہیں گزشتہ نشست کا ردِ عمل ہمیں کچھ کرگزرنے پر مجبور نہ کردے
اسوقت تک مجھ سمیت کسی کو بھی اس ہجویہ نظم کے بارے میں آگاہی نہ تھی۔ بس طیور کی زبانی یہ خبر شہر کے ادبی حلقوں میں گردش کر رہی تھی کہ ایک نظم نام بنام کسی نے بھیجی ہے۔

مقررہ دن نشست ہوئی۔ تفصیل کا علم ہمیں بعد میں والد صاحب کم اور ایک دو احباب سے زیادہ معلوم ہوا۔ تقریبا” سبھی شعراء نشست۔میں موجود تھے۔ تعظیم صاحب نے مختصر تمہید کے بعد کاغذ نکال کر نظم پڑھنا شروع کی۔ مزاحیہ انداز تھا لیکن شعراء میں کوئی محظوظ نہیں ہوا، اپنی ہجو پر کون قہقہے لگا سکتا ہے البتہ صرف دوسروں کی بابت ہو تو بات الگ ہمارا قومی وطیرہ بھی یہی ہے۔ سامعین مسکراتے رہے شاید بعد میں گھر جاکر ہنسے بھی ہوں گے۔
نظم کے بارے میں بیشتر کا یہی خیال تھا کہ مابدولت یعنی یہ “فیروز خسروؔ کی حرکت ہے۔ اس نے پچھلی نشست کی تذلیل کا بدلہ لیا ہے۔ اس کا مشاعروں سے مکمل بائیکاٹ ہونا چاہیے”۔ یہ تجویز وقتی طور پر منظور بھی ہوگئی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ کوئی ثبوت نہ ملنے پر کارگر بھی نہیں ہوئی ہم اسی طرح مشاعروں میں شرکت کرتے رہے۔ والد صاحب نے کئی بار ہم سے اس بارے میں پوچھا لیکن ہمارا جواب نفی میں ہی رہا۔ کسی کا الزام ہم کیوں اپنے سر لیتے۔ ایک مزے کی بات یہ معلوم ہوئی کہ جن شعراء کے نام اس ہجویہ نظم میں شامل نہیں تھے انہیں گلہ کرتے سنا کہ “کیا ہمارا شمار خیرپور کے شاعروں میں نہیں ہے”۔
میرے خیال میں یہ ایک علامتی ہجویہ نظم ہے ، ہر دور میں اس قسم کی خصوصیات کے حامل شعراء مل جائیں گے آج بھی ہمارے اطراف بکھرے ہوئے ہیں ۔ نام بدل دیجیے جس کا جہاں چسپاں ہوں پھر تماشہ دیکھیے۔
فی الحال تو آپ وہ نظم پڑھیے، تصور میں خیرپور میرس کا منظرنامہ لایے اور فیصلہ کیجیے کہ اُس وقت یہ ہجویہ نظم ایٹم بم ثابت ہوئی ہوگی یا نہیں:

“خیرپور کے شعراء کی نذر ایک آئینہ نظم”
منجانب “شاعرِ گمنام”

شاعر ہیں خیرپور کے خرکار، آخ تھو
یہ شاعری ہے یا کوئی بیگار، آخ تھو

ساحل غزل سنائے تو کانوں میں ڈاٹ رکھ
بہرا بنا نہ دے کہیں للکار، آخ تھو

ممبر پہ مجلسیں ہے پڑھے محفلوں میں شعر
یہ مولوی شبیہ چڑیمار، آخ تھو

اب ڈاکٹر وجیہہ بھی کہنے لگا ہے شعر
نسخوں میں لکھ رہا ہے یہ اشعار، آخ تھو

ناطق کی منطقوں سے ہوا ناطقہ بتنگ
پڑھتا ہے جانے کیسے یہ اشعار، آخ تھو
(ناطق بدایونی)

کل تک تو زخم زخم تھا اب نجم ہوگیا
بہروپیے پہ کیجئیے پھٹکار، آخ تھو

منظر غزل سناتا ہے اور ناچتا بھی ہے
زنخوں کا ہے یہ قافلہ سالار، آخ تھو

جاوید پہلیاں سی بجھاتا ہے شعر میں
یہ شعر ہیں کہ ذہن کا آزار، آخ تھو

شاعر ہے زیرِ ناف کا چریا سا ایک شخص
پسو ہوا ہے چ۔۔۔۔۔کا فنکار، آخ تھو

سمجھے ہے اپنے آپ کو چِرکیں کا جانشیں
گو مُوت میں سَنا ہوا آزار، آخ تھو

کہتے میں شعر، اٹھتے ہیں رضوان کے مروڑ
پل پل سنبھالتا ہے یہ شلوار، آخ تھو

نیّر کی شاعری میں ہے مہروں کی ٹھونک ٹھانک
بیرنگ پھر بھی ہوتے ہیں اشعار، آخ تھو
(نیّر پوسٹ ماسٹر)

یہ ہے مذاق یا ہے سگِ رہگزر کوئی
ہے گھاٹ اس کا اور نہ ہے گھر بار، آخ تھو

ان سب گدھوں میں نام کا صوفی ہے اک گدھا
یہ شاعری ہے یا کوئی ڈھنچار، آخ تھو

فیروز کل کا چھوکرا شاعر ہے آج کا
کس کام کا رہا ہے یہ بیکار، آخ تھو
(فیروز خسرو)

القصہ خیرپور کے ہے شاعروں کا حال
ہر فرد اپنے رنگ میں ہے آپ ہی مثال

ان کی دُموں پہ کس کے جو نمدہ لگایے
سب بھوت شاعری کا سروں سے بھگایے

ان کو نہ شاعری کی کبھی گھاس مل سکے
مضمون مل سکے نہی احساس مل سکے

قانون گوئی پاس کریں تو کٹے وبال
ان کو حدودِ شہر سے باہر کریں نکال

پھر سُکھ کا سانس لیجیے آرام کیجیئے
بے فکر ہو کے زیست کے سو کام کیجیے
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International