rki.news
سیالکوٹ کی زرخیز سرزمین نے اردو ادب کو کئی نابغہ روزگار شخصیات عطا کی ہیں،انھی میں سےایک نام ورشخصیت تمثیلہ لطیف بھی ہیں۔ وہ ایک ایسی شاعرہ ہیں جنھوں نے انسانی احساسات، جمالیات اور عصری شعور کو اپنی شاعری میں ایسی مہارت سے سمویا گویا دریا کو کوزے میں بند کردیا ہو۔ تمثیلہ لطیف کے شعری مجموعے جو میرے ذوق مطالعہ سےگزرے ان میں “اشکِ تمنا”، “کوئی ہمسفر نہیں”، “دشت میں دیپ جلے” اور “کیفِ غم “شامل ہیں۔ یہ مجموعے نہ صرف اُن کے تخلیقی سفر کی ترجمانی کرتے ہیں بلکہ اُن کے شعری شعور اور فکری پختگی کا آئینہ بھی ہیں۔
جب تمثیلہ لطیف کی شاعری نے نمو پائی، اُس دور میں اردو شاعری پر جمالیات کا غلبہ تھا۔ تاہم تمثیلہ لطیف نے محض حسن و جمال کی شاعری تک خود کو محصور نہیں رکھا؛بل کہ انہوں نے روزگار کی جدوجہد، محبت کا کرب، اور اپنوں کی بےرخی جیسے موضوعات کو بھی اپنی شاعری کا حصہ بنایا۔ ان کے ہاں سب سے نمایاں وصف توازن ہےانھوں نے زندگی کے تمام پہلوؤں کو نہایت نفاست اور ہم آہنگی کے ساتھ بیان کیا۔
تمثیلہ لطیف کے بعض اشعار میں کلاسیکیت کی روح موجزن ہے، جبکہ اُن کی مجموعی شاعری میں غمِ جاناں اور غمِ دوراں دونوں کی لطیف آمیزش پائی جاتی ہے۔ اُن کی سب سے نمایاں فنی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے غزل میں کلاسیکیت کو جمالیاتی احساس کے ساتھ ہم آہنگ کر کے اپنے عہد کی ترجمانی کی۔ یہی فنی خوبی ان کی شاعری کو دوسرے معاصر شعرا ء کے کلام سے امتیاز بخشتی ہے۔ان کی شاعری میں کہیں بھی سطحی یا وقتی جاذبیت کا عنصر نہیں ملتاوہ گہرے احساسات کو سادہ مگر دل نشیں اسلوب میں بیان کرتی ہیں، جیسا کہ وہ خود کہتی ہیں:
؎ہماری ذات سے نفرت تمہاری گو یہ عادت ہے
ہمیں جتنا بھی تڑپاو محبت مر نہیں سکتی
غزل کا ایک شعر ملاحظہ ہو:
؎اگر یہ مسلہ ہے ہم کدھر جائیں گے
تو خشبو کی طرح آو بکھر جائیں گے
یہ اشعار اُن کے جذبۂ محبت، صبر، اور داخلی مضبوطی کا مظہر ہیں تمثیلہ لطیف اپنے عہد کی ایک سلیس، مخلص اور فکری طور پر متوازن شاعرہ ہیں۔ جن کے ہاں نہ صرف عورت کا داخلی احساس جھلکتا ہے بل کہ پورے معاشرے کی روح بولتی نظر آتی ہے۔اُن کا کلام بلاشبہ اردو شاعری میں ایک تازہ ہوا کےجھونکےکی مانندہے جو قاری کو نہ صرف متاثر کرتا ہے بلکہ اُسے فکر و احساس کے نئے زاویے بھی عطا کرتا ہے۔
تمثیلہ لطیف کی شاعری میں رومانویت ایک لطیف جذبے کے طور پر ابھرتی ہے۔مگر وہ محض ظاہری حسن و جذباتی تسکین تک محدود نہیں رہتی۔ ان کے ہاں رومان محبت کے روحانی اور باطنی پہلوؤں سے جڑا ہوا ہے۔ وہ جب عشق کو موضوع بناتی ہیں ،تو اس کے ساتھ کرب، قربانی اور داخلی صداقت کو بھی بیان کرتی ہیں ان کے اشعار میں ایک دلکش رومانوی حسن کے ساتھ ایک فکری گہرائی بھی جھلکتی ہے، جیسا کہ وہ کہتی ہیں:
؎قیام عشق واجب ہے جیسے ہم خود نبھائیں گے
مگر دامن چھڑانے سے محبت روٹھ جاتی ہے
یہ اشعار محض رومان نہیں بل کہ وجود کی ناپائیداری اور احساسِ فنا کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں ۔تمثیلہ لطیف کے نزدیک محبت ایک زندہ قوت ہے جو فنا میں بقا تلاش کرتی ہے ۔یہ اشعار اُن کے اخلاصِ محبت اور جذبۂ استقامت کا مظہر ہیں تمثیلہ لطیف کی رومانویت جذباتی کمزوری نہیں بلکہ روحانی بلندی کا اظہار ہے۔
سب سے بڑا عنصر جو تمثیلہ لطیف کی شاعری میں تزک و احتشام کے ساتھ نظر ایا وہ ہے تمثیلہ کی شاعری میں “اداسی” ۔ایک ایسی اداسی جو دکھ کے بجائے احساس کی لطافت سے جنم لیتی ہے۔ ان کے ہاں یہ غم نہ صرف محبت کا کرب ہے بل کہ زندگی کی ناقدری اور انسان کی تنہائی کا نوحہ بھی ہےوہ خود کہتی ہیں:
؎تیرے غم میں ٹوٹ کر رووں
مجھ سے برسات کا تقاضا ہے
غزل کاایک اور شعر:
؎ایک ہی خوف کہ ہنسنے نہیں دیتا مجھ کو
تیرے غم میں نہ کسی روز خیانت ہوجائے
یہاں غمِ عشق ایک مقدس امانت بن کر سامنے آتا ہے جس کی حفاظت عاشق کا فرض ٹھہرا۔تمثیلہ لطیف کی اداسی کربِ جاں کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ یہ اداسی محبت کی روشنی کی صورت میں جلوہ گر ہوتی ہے تو کبھی یہ اداسی زمانے کی ناقدری کی اداسی نظر اتی ہے ۔تو کبھی محبوب کی بےوفائی کے کرب کی صورت میں رونما ہوتی ہے اس اداسی کا احاطہ بڑا وسیع اور گہرا ہے۔ ایک اورشعر میں اداسی کو اس طرح بیان کرتی ہے کہ اس سےبہتر تکنیک غزل میں کم دیکھنے کو ملے گی:
؎تمثیلہ کاش عید سے پہلے وہ لوٹ آئے
میری نماز اور میرا روزہ اداس ہے
ایک اور شعر ملاحظہ ہو:
؎ساحل کے ساتھ ہیں لہریں بھی سب اداس
کشتی اداس ہے، وہی دریا اداس ہے
یہ اشعار ان کے اندرونی اضطراب اور احساسِ ویرانی کی حسین تصویریں ہیں جو قاری کے دل پر دیرپا اثر چھوڑتی ہیں۔
تمثیلہ لطیف کی شاعری جہاں غم جاناں کی گردان کرتی ہے وہیں غم روز گار سے بھی منزہ نہیں ، یہ ایک ایسا کرب ہے جو ان کے ہر شعر کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھتا ہے۔ تمثیلہ بھی اس کرب کی لہروں سے بچ نہ سکیں:
؎بہت مزدوریاں کرنی پڑیں بچوں کی خاطر بھی
مقدر کا لکھالیکن،کبھی پل بھر نہیں بدلا
یہ شعر نہ صرف ذاتی دکھ بل کہ معاشرتی حقیقت کا عکس بھی ہے۔ تاہم تمثیلہ لطیف کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ اس دکھ سے مایوسی نہیں بل کہ تخلیقی تازگی پیدا کرتی ہیں۔ اُن کے ہاں غمِ روزگار میں بھی اُمید کا چراغ روشن رہتا ہے، اور یہ پہلو ان کی شاعری کو محض افسردگی سے بلند کر کے زندگی کے شعور میں تبدیل کر دیتا ہےاس کرب کے اظہار میں ان کی خواہشات کا ضیاع نہیں ہوتا۔
تمثیلہ لطیف کی شاعری میں تخیل کا بیاں خاصا جاندار ہے۔ اس حوالے سے ان کا عمدہ انتخاب ان کے ذوق کی نمائندگی کرتا ہے ۔ وہ محض مشاہدات تک محدود نہیں رہتیں بل کہ اپنے خیالات کو ایسی تخلیقی وسعت عطا کرتی ہیں جس سے ان کے اشعار میں ایک نیا جہان آباد ہوتا نظر آتا ہے۔ ان کا تخیل صرف تصوراتی نہیں بل کہ احساس اور وجدان کی گہرائیوں سے پھوٹتا ہے۔ان کے کلام میں خواب اور حقیقت کے مابین ایک لطیف رشتہ قائم ہوتا ہے جو قاری کو مسحور کر دیتا ہے۔جیسا کہ وہ کہتی ہیں:
؎شب بھر اس کی بانہوں میں تھی
خواب میں اس نے دیکھا ہوگا
یہ محض ایک خواب کا بیان نہیں ،محبت کی نفسیاتی و جذباتی کیفیت کی ایسی تصویر ہے جو تخیل کے ذریعے حقیقت کا روپ دھار لیتی ہے۔تمثیلہ لطیف کی شاعری میں تخیل، حقیقت سے فرار نہیں ، حقیقت تک رسائی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ان کے ہاں تخیل جینے کا ایک انداز ہے ــــــ جو دکھوں میں روشنی، تنہائی میں ہمسفری اور کرب میں خوبصورتی پیدا کرتا ہے۔تمثیلہ لطیف شاعری میں تخیل پسندی کے ذریعے اگے بڑھتی ہیں اور تخیل ہی سے حقیقت پسندی کی طرف راستے نکال لیتی ہیں یہ تخیل ان کی شاعری میں جینے کا سبق آموز بیان ہے۔
غزل گوئی میں عشق اور محبت کا بیان ان کے مطابق کلاسیکی روایت کا آئینہ دار ہے ۔ ان کے کلام میں میر کا درد،ناصر کی سی رومانیت اور ولی کی سی کلاسیکیت جھلکتی ہے۔ تمثیلہ شاعری میں کہیں بھی مقلد نظر نہیں آتی وہ سبھی شاعروں سے الگ ایک منفرد راستہ اپناتے ہوئے نمودار ہوتی ہیں۔بقول شاعرہ
؎اپنی آنکھوں میں محبت کی خشبو لے کر
دل کے خانے میں کئی لوگ اتر جاتے ہیں
یہ شعر نہ صرف رومان کا بیان ہے بل کہ انسانی تعلقات کی پیچیدگی اور گہرائی کو بھی ظاہر کرتا ہے اسی طرح ان کے اشعار میں محبت کے انجام، ہجر کے کرب، اور وصل کے خواب کا امتزاج بھی نمایاں ہے:
؎بارہا ہم نے محبت میں بہت دیکھا
ہجر میں عشاق بھی مر جاتے ہیں
تمثیلہ لطیف کی غزل گوئی کی زبان سادہ، شیریں اور اثر آفرین ہے۔ ان کے الفاظ میں نرمی اور روانی ہے جو قاری کے دل پر سیدھا اثر ڈالتی ہے۔وہ اپنے اشعار میں سوال کے پیرائے میں گہرے جذبات سمیٹتی ہیں، جیسے وہ کہتی ہیں:
؎مجھے بتاو محبتوں کے امین تم ہو
یہ جیت کیا ہے؟ ہار کیا ہے قرار کیا ہے
یہ سوال دراصل محبت کے فلسفے کی جستجو ہےــــــ جو انسانی احساسات کے نہ ختم ہونے والے سفر کی علامت ہے۔تمثیلہ لطیف کے ہاں حسن و عشق کی رنگینی کو بھی خاص نزاکت سے بیان کیا گیا ہے۔جذبوں اور تخیل کا خوب صورت امتزاج تمثیلہ لطیف کی شاعری کا خاصا ہے ۔ان کی شاعری حسن کی رعنائی ،عشق کی چاہت سے بھری پڑی ہے وہ محبت کو خوشبو، روشنی اور لمس کے استعاروں میں ڈھالتی ہیں:
؎تجھ کو چھوئے ہوئے جو باد صبا آتی ہے
ایسی خوشبو کی جہاں بھر میں پذیرائی ہے
یہ شعر تمثیلہ لطیف کے جمالیاتی شعور اور فنی مہارت کا عکاس ہے۔ ان کے کلام میں جذبۂ عشق، احساسِ حسن اور تخیل کی بلندی اس انداز میں یکجا ہیں کہ قاری کو ان کی شاعری ایک مکمل تجربے سے روشناس کراتی ہے جہاں رومان، غم، حقیقت اور خواب سب ایک ہی فضا میں گھل مل جاتے ہیں۔
تمثیلہ لطیف کی شاعری میں غمِ فراق ایک ایسا جذبہ ہے جو محض محبت کے بچھڑنے کا نوحہ نہیں بل کہ انسانی احساس کی گہرائی اور تنہائی کی شدت کا استعارہ بن جاتا ہے۔ہر شاعر نے فراق کے دکھ کو اپنے انداز میں بیان کیا ، مگر تمثیلہ لطیف اس دکھ کو ایک ایسی نرمی اور سچائی سے پیش کرتی ہیں کہ قاری اس احساس میں خود کو شامل پاتا ہے۔ان کی غزل “اشکِ تمنا” میں ایک شعر خاص طور پر ان کے فکری اور جذباتی ارتکاز کی مثال ہے:
؎تلخی غم حیات کی سنتا نہیں کوئی
میری طرح فراق میں رہتا نہیں کوئی
یہ اشعار محض ذاتی دکھ کا اظہار نہیں بل کہ عہدِ موجود کی بےحسی پر ایک لطیف احتجاج بھی ہیں۔یہاں “تلخیِ غمِ حیات” زندگی کی سختیوں اور “فراق” انسان کی داخلی تنہائی کا استعارہ بن کر سامنے آتا ہے۔تمثیلہ لطیف کے ہاں فراق کا دکھ ایک خاموش فریاد ہے ــــــوہ چیختی نہیں، مگر ان کے الفاظ میں ایک ایسا درد ہے جو دل کو چھو لیتا ہے۔
تمثیلہ لطیف نے اپنوں کے بے رخی اور دیے دکھوں کو ایسے پیرائے میں بیان کیا کہ جو چوٹ اپنوں سے لگتی ہے اس کا درد قابل برداشت نہیں ۔ان کے الفاظ میں جو دکھ ہے، وہ دکھ محض شکایت نہیں بل کہ رشتوں کے زوال اور احساس کی کمزوری پر گہری چوٹ ہے۔وہ اس درد کو بیاں کرتے پکار اٹھتی ہیں:
؎مجھے رشتہ داروں سے دکھ ہی ملے ہیں
مجھے اپنے دکھ کو مٹانا نہ آیا
یہ شعر تمثیلہ لطیف کی سچ بولنے کی جرات اور ان کے خالص انسانی جذبے کا مظہر ہے۔یہ وہ درد ہے جو ہر حساس دل کے قریب ہے ۔ اپنوں سے ملنے والا زخم سب سے گہرا ہوتا ہے، انھوں نے اس سچائی کو شاعری کے قالب میں ڈھال کر اسے انسانی تجربے کی صداقت میں بدل دیا ہے۔ان کے ہاں غمِ فراق اور اپنوں کی بےرخی کا دکھ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ۔ایک طرف محبوب کی دوری کا کرب، دوسری طرف اپنوں کی بےحسی کی چبھن،یہی امتزاج ان کی شاعری کو ایک خاص روحانی درد اور داخلی سچائی عطا کرتا ہے۔
تمثیلہ لطیف کی شاعری کا ایک نہایت قابلِ ذکر وصف ان کا استعارتی اظہار ہے۔ وہ محض لفظوں سے کھیلتی نہیں بل کہ الفاظ کو احساس کی تصویروں میں ڈھال دیتی ہیں۔ ان کے اشعار میں معنی کے کئی پرت چھپے ہوتے ہیں، قاری جب ان میں جھانکتا ہے تو ہر بار کوئی نیا جہان سامنے آتا ہے۔ان کے ہاں استعارات محض آرائشی عنصر نہیں بل کہ احساسات کو بصری صورت دینے کا وسیلہ ہیں۔وہ غم، محبت، اداسی یا تنہائی کسی بھی جذبے کو ایک منظر کی شکل میں قاری کے سامنے لے آتی ہیں:
؎آنکھ میں پھیلا سمندر دیکھ لو
دور سے لیکن یہ منظر دیکھ لو
تمثیلہ لطیف کی شاعری میں یہ بصری تخیل بارہا سامنے آتا ہے۔ ان کے اشعار میں لفظ تصویروں کا روپ دھار لیتے ہیں۔یہی وہ خصوصیت ہے جو ان کی شاعری کو محض پڑھنے کا نہیں بلکہ محسوس کرنے کا تجربہ بنا دیتی ہے۔
ان کے ہاں منظر نگاری اور جذبات نگاری اس قدر ہم آہنگ ہیں کہ قاری کو ایسا لگتا ہے جیسے وہ لفظ نہیں بلکہ ایک مکمل فضا میں سانس لے رہا ہو۔ان کے استعارات میں نہ صرف جمالیاتی نزاکت ہے بل کہ ایک نفسیاتی گہرائی بھی ہے۔وہ سادہ الفاظ کے ذریعے پیچیدہ احساسات کو ظاہر کرتی ہیں ــــــ اور یہی سلیقہ ان کی شاعری کو دلکش، قابلِ فہم اور دیرپا بناتا ہے۔
تمثیلہ لطیف نسائی احساس اور سماجی شعور کی ترجمان شاعرہ ہیں ان کی شاعری صرف حسن و عشق، فراق و وصال یا غمِ دوراں تک محدود نہیں۔ان کے کلام میں سماجی شعور، انسانی ہمدردی اور احتجاجی صداقت کا بھی مضبوط عنصر پایا جاتا ہے۔وہ محض جذبات کو بیان نہیں کرتیں بلکہ سماج کے زخموں پر انگلی رکھتی ہیں۔ہمارے معاشرے کا ایک المناک پہلو یہ ہے کہ یہاں اکثر نوجوان لڑکیوں کی شادی ان کی مرضی کے خلاف کر دی جاتی ہے۔ ان کے جذبات، خوابوں اور خواہشات کا کوئی احترام نہیں کیا جاتا۔ انھیں اپنی زندگی کے فیصلوں سے محروم رکھ کر صرف ایک سماجی رسم کا حصہ بنا دیا جاتا ہے۔تمثیلہ لطیف نے اس مسئلے کو نہایت دلگداز مگر پُراثر انداز میں اپنی شاعری کے ذریعے اجاگر کیا ہےوہ کہتی ہیں:
؎مجبور کس قدر یہاں ہوتی ہیں لڑکیاں
بسنے کے داغ اشک سے دھوتی ہیں لڑکیاں
کرکے نثار اپنی محبت کے سارے پھول
اپنے جگر میں خار چیبھوتی ہے لڑکیاں
یہ محض ہمدردی نہیں بل کہ نسائی خود آگاہی اور شعورِ احتجاج کا اظہار ہے۔یہ اشعار اُس داخلی المیے کی عکاسی کرتے ہیں جو صدیوں سے عورت کے وجود کا حصہ رہا ہے ۔ محبت کرنے والی لڑکی کا انجام اکثر قربانی اور خاموشی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔تمثیلہ لطیف کی شاعری میں عورت کسی مظلوم شے کے طور پر نہیں بلکہ ایک احساس رکھنے والی، خودار اور حساس ہستی کے طور پر سامنے آتی ہے۔وہ اس سماج سے شکوہ کرتی ہیں، مگر شکست قبول نہیں کرتیں۔ان کی شاعری عورت کی خاموش چیخ اور اندرونی طاقت دونوں کا سنگم ہے۔
تمثیلہ لطیف کی شاعری اپنی مثال آپ ہے۔ان کے ہر شعر میں احساس کی تازگی، مشاہدے کی گہرائی اور اظہار کی چمک ایسے جڑی ہوئی ہے جیسے الفاظ کے موتی کسی نازک سی لڑی میں پروئے گئے ہوں۔ان کے مجموعہ “دشت میں دیپ جلے” کا ایک شعر ان کے فن کی معنوی وسعت کو خوب نمایاں کرتا ہے:
؎تھی محبت نماز سے بڑھ کر
رات وہ بھی قضاء ہوئی مجھ سے
یہ شعر نہ صرف محبت کی شدت کو ظاہر کرتا ہے بل کہ یادِ محبوب کو عبادت کی معنویت عطا کرنا ارجمند دید ہے۔محبوب کی یاد کو “نماز” سے تشبیہ دینا اور اس کے “قضا ہونے” کے دکھ کو ایک مصرع میں سمیٹ دینا یہ وہ فنی چابکدستی ہے جو تمثیلہ لطیف کو اپنے ہم عصر شعرا سے ممتاز بناتی ہے۔
غزل کے دو اور شعر جو پڑھ کر مجھے لگا کے شاعرہ نے دریا کو کوزے میں واقعی بند کردیا:
؎میری آنکھوں میں یہ جو پانی ہے
اک ستمگر کی یہ نشانی ہے
خرچ کرنے سے ڈرتی ہوں
ہاتھ میں ایک ہی دوانی ہے
یہ اشعار تمثیلہ لطیف کی معاملہ بندی اور سادہ اظہار میں پوشیدہ معنوی گہرائی کو آشکار کرتے ہیں۔وہ معمولی الفاظ سے غیر معمولی احساسات پیدا کرتی ہیں یہی ان کی فنی عظمت ہے۔
تمثیلہ لطیف دور جدید کی ایک فائق شاعرہ ہیں ۔انھوں نے اپنی شاعری میں منفرد اصول فن، معاملہ بندی،داخلیت، خارجیت، نسوانیت، جمالیات کو بڑے نفیس انداز اور سنجیدگی سے بیاں کیا ہے۔ان کا کلام سہل مگر عمیق ہے، جو روزمرہ زندگی کے تجربات و مشاہدات کو فکری بلندی کے ساتھ جوڑ دیتا ہے۔تمثیلہ لطیف کی شاعری قاری کو نئی سوچ سے متعارف کراتی ہے اس کے ساتھ ساتھ سوچنے اور محسوس کرنے کا نیا زاویہ بھی عطا کرتی ہیں ۔انھوں نے شاعری کے تمام جدید تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھا ۔اس کے علاوہ شاعرہ نے غزل کی محدود نظریہ کی نفی کی اور شاعری کو جاندار نظریہ عطا کیا۔محبت کو بیاں کرتے ہوئے اپنی دل کے نرم گوشوں کی کیفیت قاری پہ خوب صورت انداز میں مبین کرتےنظر آتی ہیں ۔تمثیلہ لطیف کی شاعری دور جدیدیت کی عکس بینی کرتی ہے ان کی شاعری محض الفاظ کا تسلسل نہیں بل کہ دل کی نرم گوشوں سے اٹھنے والی دھیمی صداؤں کا امتزاج ہے۔وہ محبت، جدائی، درد اور خودی ہر احساس کو ایک ایسے لطیف رنگ میں پیش کرتی ہیں کہ قاری دیر تک اس کے اثر میں رہتا ہے۔اور یوں اختتام پر ان کا یہ شعر پوری شاعری کے مزاج کو گویا ایک جملے میں سمیٹ دیتا ہے:
؎چلو مانا کہ دل رکھنے کی خاطر سب کہا لیکن
قسم جھوٹی ہی کھانے کا سلیقہ سیکھ لیتے تم
تبصرہ: شاہ فیضی،کوئٹہ بلوچستان
Leave a Reply