اللہ کے نام سے شروع جو بار بار رحم کرنے والا مہربان ہے ۔۔۔ انسان اشرف المخلوقات اپنی عقل کی وجہ سے ہے اور یہ عقل ہی ہے جو ہمیں اس دنیا میں رہنے کے قابل بناتی ہے ۔۔۔۔۔ ہماری سوچ ہر نئے دن بدلتی ہے حالات کے ستائے ہوئے لوگ جب قلم کے ذریعے جہاد کرتے ہیں تو انکا قلم ایسے ایسے شاہکار تخلیق کرتا ہے کہ پڑھنے والی آنکھ دھنگ رہ جاتی ہے ۔۔۔
کچھ کُتب اور شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کے بارے بات کرنا یا لکھنا انسان کیلئے بہت کھٹن ہوتا ہے میرے لئے تہذیبِ سخن پہ بات کرنا بلکل ایسا ہی ہے ۔۔۔
میں نے راو تہذیب حسین تہذیب کا شعری مجموعہ “تہذیبِ سُخن” پڑھنا شروع کیا تو اُن کے الفاظ نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا ۔۔۔ یہ واحد کتاب ہے جو میں نے ایک ہی نشست میں پڑھی مگر چاہتے ہوئے بھی اس پہ فورا تبصرہ نہ لکھ پائی کیونکہ میں اسے دوبارہ پڑھنا چاہتی تھی ۔۔ شاید بار بار پڑھنا چاہتی تھی
لفظ لفظ خوشبو حرف حرف محبت ۔۔۔شاعر نے اس شعری مجموعے کو اس دل اور لگن سے لکھا ہے کہ قاری کیلئے اسے پڑھتے ہوئے کہیں اور دیکھنا ناممکن ہے ۔۔۔
حمدِ باری تعالی ہو یا نعت رسولِ مقبولؐ عقیدت کا ایسا گہرا رنگ کہ سبحان اللہ ۔۔۔
حمد کے دو اشعار سنیں اور خود فیصلہ کریں
نام لکھ اپنے غلاموں میں میرا
یوں مجھے بھی صاحبِ توقیر کر
دیکھتے رہ جائیں جو دیکھیں مجھے
اپنی رحمت یوں میری تقدیر کر
سبحان اللہ ۔۔ ایسا پر کیف اور خوبصورت اندازِ بیان کہ پڑھنے والا مبہوت رہ جائے ۔۔۔ ایسا جامع انداز آج کے دور میں بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے ۔۔۔
راو تہذیب حسین تہذیب صاحب نے واقعہ کربلا سے لیکر جدید دور میں ہونے والے سانحات کو اپنی شاعری میں اس طرح سے بیان کیا ہے کہ قاری اُنکی قلمی گرفت دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے ۔۔۔
اس کتاب میں وہ سب ہے جو ایک قاری کی دلچسپی کا محور و مرکز ہوتا ہے ۔۔۔۔ وطنِ عزیز کی محبت میں ڈوبے اُن کے اشعار اُنکے پکا اور حساس محبِ وطن ہونے کا ثبوت ہیں ۔۔۔۔۔ راو تہذیب حُسین تہذیب ملک کی ناگزیر حالت دیکھ کر یقینا قلم کے ذریعے جہاد کررہے ہیں وہ حق و سچ لکھتے ہوئے اپنے وطن کی مٹی کا صحیح معنوں میں حق ادا کررہے ہیں ۔۔۔
شعر پڑھیے
اگر یہ میرا وطن نہ ہوتا
حسین و دلکش چمن نہ ہوتا
نشاں بھی ہوتا نہ اس جہاں میں
کہیں پہ میرا سخن نہ ہوتا
تہذیب صاحب کی شاعری محبت اور امن کا درس دیتی ہے ۔۔۔ نیلسن منڈیلا سے لیکر محترمہ بے نظیر بھٹو شہید صاحبہ کی شخصیت کو انہوں نے اپنی شاعری میں اتنی مہارت سے بیان کیا ہے … انکی شاعری وقت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے میری نظر میں اچھا شاعر وہ ہے جو لکھے تو پڑھنے والا اس لکھاوٹ کو اپنی آنکھوں کے سامنے محسوس کرے اور تہذیب صاحب کی کتاب پڑھتے وقت میں نے کرداروں کو اپنے سامنے چلتے پھرتے پایا ۔۔۔۔۔
محترم تہذیب حسین صاحب نہ صرف شعر گوئی میں کمال رکھتے ہیں بلکہ غزل کہنے میں انکا کوئی ثانی نہیں انکی غزل کا ایک شعر سنیے اور پھر خود بتائیے
اک وہ کہ جن کے گھر میں چراغاں ہے چار سُو
اک ہم کہ روشنی کو دِیا ڈھونڈ رہے ہیں
ہر درد و غم سے کب کا میں آزاد ہوچکا
چارہ گرانِ درد ، دوا ڈھونڈ رہے ہیں
آجکل کے دور میں قلم میں اتنی پختگی اور روانی بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے ۔۔ اللہ پاک محترم تہذیب حسین پر اپنا خصوصی فضل فرمائے اور انکی قلمی مہارتیں ہمیشہ رواں دواں رکھے
آمین ثمہ آمین
آپ ہمیشہ سلامت رہیں سر اور اپنے قلم سے ہمیشہ خیر بانٹتے رہیں
میرا قلم اس قابل نہیں کہ میں آپکی ذات پہ کُھل کے اپنی رائے کا اظہار پیش کرسکوں اس لئے مجھ ناچیز کی طرف سے یہ مختصر سا تبصرہ قبول کیجئے
مہوش ملک
Leave a Reply