Today ePaper
Rahbar e Kisan International

تیس روپے، غلبہ شیطانیت اور بے حس سماج

Articles , Snippets , / Wednesday, August 27th, 2025

rki.news

تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
کتنی معمولی سی بات تھی، کتنا عام سا مسئلہ تھا بلکہ حقیقت میں مسئلہ تھا بھی نہ، یونہی اک روز مرہ کی. معمولی سی نوک جھونک،
جیسے گھر میں کسی چھوٹی سی بات پہ گھر کے لوگوں میں توں تکرار ہو جاے، جیسے کسی پیارے سے ہم اینویں ہی لاڈ ہی لاڈ میں الجھ جاییں اور پھر لاڈ سے اس کے گلے میں بانہیں ڈال کر کھلکھلا کر ہنس پڑیں، جیسے بازار میں خرید و فروخت کرتے ہوے کسی پرانے شناسا دوکان دار سے
بھاو تاو میں کمی کرواتے ہوئے، یونہی مذاق ہی مذاق میں چھوٹی موٹی رعایت کرواتے ہوئے، خواہ مخواہ کی خوشیوں کے ہنڈولے میں اڑتے پھریں، حالانکہ بھلا شاپنگ میں جتنی رعایت کروای ہو، اس سے کہیں زیادہ ہمارا کرایہ بازار آنے جانے میں لگ چکا ہو، ،خیر اکیس اگست 2025 کو شام چھ بجے دو شیر فروش بھائی جو قصور کے ایک گاؤں رتی پنڈی کے رہایشی تھے، فروٹ خریدنے کے لیے ایک کیلوں والی ریڑھی پہ رکتے ہیں اور یہیں سے ان کا برا بلکہ شدید برا اور کٹھن وقت شروع ہو جاتا ہے، ایک درجن کیلے ایک سو تیس روپے کے ہیں، خریدار کی جیب میں سو روپے ہیں، یا پانچ ہزار کا نوٹ، دوکاندار سے درخواست کی جاتی ہے کہ یا تو پانچ ہزار روپے تڑوا لیے جائیں یا سو روپے کے جتنے کیلے آتے ہیں، دے دیے جائیں مگر نہ جی کیلے بیچنے والے کا دماغ ایسا خراب ہوتا ہےاس کے جسم و روح پہ شیطانیت اس طرح سے حملہ آور ہوتی ہےکہ وہ دونوں بھائیوں سے بحث مباحثہ کرتے کرتے ہی اپنے یار بیلیوں کو بھی فون کر دیتا ہے اور وہ یار بیلی جو کھیتوں میں کرکٹ کرکٹ کھیل رہے ہوتے ہیں اس لڑای کے دعوت نامے پہ بھاگ کے پہنچتے ہیں ، اور وہ موت کے فرشتے بن کر بلے اور ڈنڈے کے کر دونوں نہتے، بے گناہ بھائیوں پہ یوں حملہ آور ہوتے ہیں، جیسے، دونوں بھائی کسی بہت ہی گھناونے جرم کے مرتکب ہو چکے ہوں، بیچارے ماں کے لاڈلے صبح ہنستے مسکراتے، ماں کے ہاتھ کے بنے ہوئے دیسی گھی کے پراٹھے،گھر کے جماے ہوے دہی کے ساتھ بڑے لاڈ سے کھا کے گھر سے نکلے ہوں گے اور پھر ماں کی دعاؤں اور بچوں کو پیار کرتے ہوے دونوں بھائی گھر کی دہلیز پار گیے ہوں گے، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے، کبھی نہ لوٹ آنے کے لیے، یہ جوان اور اچانک موت بھی نہ بڑی ظالم اور جان لیوا ہوتی ہے، اپنے ساتھ دس بارہ لوگوں کو تو لے ہی جاتی ہے، تو پچیس سالہ راشد اور بائیس سالہ ہوںواجد دونوں ہی جان سے گیے، یہ سانحہ ہماری بے حسی، ہماری کمینگی، ہماری تھوڑ دلی، ہماری کم ظرفی اور من حیث القوم ہماری قوم کے جنازے جیسا ہے، خیر حضرت انسان کی کم ظرفی تو آدم کے وجود کے ساتھ ہی وجود میں آ چکی تھی، لیکن کبھی کبھی انسان اپنے کردار اور اطوار میں اتنا پست ہو جاتا ہے کہ لفظ اس ظلم و بربریت کو بیان کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں ایسا ہی معاملہ اکیس اگست 2025 کی شام کو راے ونڈ روڈ لاہور پہ پیش آ گیا جہاں دو سگے بھائی کام سے واپسی پہ کیلے خریدتے ہوے، کیلے بیچنے والے کے بے جا غذب اور عذاب کا اس طرح سے شکار ہوے کہ بھرے مجمعے میں دنڈے اور بیٹ کھا کر جان کی بازی ہار گیے، مجمع اتنا بے حس اور بے بس تھا کہ ماسوائے وڈیوز بنانے کے اور کچھ بھی نہ کر سکا.
حیف
حیف
اور صد حیف
کیا ڈر تھا،؟ خوف تھا،؟ بے بسی تھی؟ بے غیرت تھی؟ اخلاقی قدروں کی پایمالی تھی،؟ انسانیت کی موت تھی، حشر دیہاڑا تھا،؟ موت سے پہلے کی موت تھی؟ کیا تھا؟
جو بھی تھا، اس کی کوی اخلاقی حیثیت نہ تھی، مجمع بس ہجوم تھا، اندھے، بہرے اور لولے لنگڑوں کے، جن کے سامنے صرف تیس روپے پہ ایک ماں کے دو لعل سر، عام بیچ سڑک پہ ڈنڈوں کے بے باکانہ وار کر کے مار دیے گئے؟؟؟؟ ؟؟
پولیس اور ایمبولینس اس وقت آتی ہے جب مظلوم گاہک مار کھا کھا کے قریب المرگ ہو جاتے ہیں، تو اس واقعہ سے اہل وطن کو یہ تو ازبر ہو جانا چاہیے کہ اگر کبھی آپ کا کوی جھگڑا طول پکڑنے لگے تو اپنی انا کو ایک طرف رکھ کے معافی مانگ کر اپنے اپنے گھروں کی راہ لیا کیجئے کیونکہ باقی سب تماشا بین ہیں، ان کی بلا سے آپ بھلے جان سے جاءیں.
اس ہولناک اور المناک واقعے نے مجھے 15 اگست 2010 میں سیالکوٹ کے گاؤں بٹر میں دو سگے بھائیوں حافظ منیب اور حافظ مغیس کو چوری کے شبے میں بھرے مجمعے میں پولیس کی موجودگی میں بے رحمی سے مار دیا گیا، سات لوگوں کو سزاے موت، چھ کو عمر قید اور کچھ پولیس والوں کو سزائیں تو ہوییں، مگر پھر لولے لنگڑے نظام عدل میں سزائیں بھی معاف ہوییں اور سزاے موت کو دس، دس سال کی سزا میں بدل دیا گیا، گویا عدل و انصاف کا منہ بھی چڑایا گیا اور مظلوموں اور ناحق قتل ہونے والوں کا مذاق بھی جی بھر کے اڑایا گیا،
جب ہم عوام نے اپنی ہر شے کی ذمہ داری خود ہی لینی ہے تو حکومت ہم سے ہر ہر شے پہ ٹیکس کیوں وصول کرتی ہے؟؟؟؟ ؟؟
پندرہ سال پہلے بھی یہی ظلم. و انصافیاں
پندرہ سو سال پہلے بھی یہی قصہ ظلم
ظلم و بربریت کے خاتمے کے لیے دو چیزیں اشد ضروری ہیں، بر وقت اور شفاف انصاف اور اس فیصلے پہ فوری عمل درآمد. لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے، ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ہیں اور دکھانے کے اور، بیچ میں ہمارے، آپ جیسے خواہ مخواہ میں پس رہے ہیں. غور کیجئے گا 78 سال ہو چکے ہیں چور سپاہی کے اس کھیل میں.؟؟؟ ؟؟؟
تو پھر میں اور آپ یہی کہہ کر اپنے آپ کو تسلی دے سکتے ہیں.
کاش یادوں کے بھی کفن ہوتے
کاش یادیں بھی دفن ہو جاتیں
غم کی گھاتیں بھی دفن ہو جاتیں
وارداتیں بھی دفن ہو جاتیں
اللہ، اہل زمین پہ رحم فرمائے
آمین ثم آمین
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
Punnam Naureen 1@cloud.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International