rki.news
بس جاتی ہیں خوابوں میں جو کاجل بھری آنکھیں
پھر نیند اڑا دیتی ہیں میری ، تری آنکھیں
باقی نہیں رہتا ہے مجھے ہوش مہینوں
ہونٹوں سے ہی چھو لوں جو تری جام سی آنکھیں
تاریکی میں لگتے ہیں چمکتے ہوئے جگنو
آنکھوں سے ، مرے دل میں اترتی ہوئی آنکھیں
جو دیکھ لے اک بار ، وہ مر کر بھی نہ بھولے
شاداب سے چہرے پہ حسیں شربتی آنکھیں
جھیلوں سی ہیں ، خاموش تو ہرنوں سی ہیں چنچل
آئینے میں دیکھی بھی ہیں ، اپنی کبھی آنکھیں
جِھل مل کبھی کرتی ہوئی تاروں سی فضا میں
بھونروں سی دکھائی دیں کبھی سرمئی آنکھیں
رکھ کر کبھی ہاتھ ان پہ ، نہ جاؤں یہ قسم کھاؤں ؟
خائف ہیں بچھڑنے سے جو سہمی ہوئی آنکھیں
احساس غموں کا ، مجھے ہونے نہیں دیتیں
بچپن کی شرارت بھری ، یہ منچلی آنکھیں
**شاعرہ تمثیلہ لطیف
Leave a Reply