rki.news
کالم نگار ۔۔۔۔۔ نواز ساجد نواز
ایم فل اردو
رفاہ یونیورسٹی
یہ جملہ عصرِ حاضر کے معاشی اور سماجی نظام پر گہرا طنز ہے، جس میں طاقتور طبقے کی چالاکی اور کمزور طبقے کی مجبوری دونوں کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ آج کے دور میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم نے اخلاقی قدروں کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ جو شخص طاقت، سرمایہ اور تعلقات رکھتا ہے، وہ ہر ظلم کو قانونی یا کاروباری جواز کے پردے میں چھپا دیتا ہے۔ غریب کی محنت، اس کا پسینہ اور اس کی ضرورت، امیر کے لیے منافع کمانے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں “لوٹ مار” کو “کاروبار” کا نام دے کر معاشرتی بددیانتی کو قابلِ قبول بنا دیا جاتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں دولت مند طبقہ نہ صرف وسائل پر قابض ہے بلکہ اخلاقیات کے پیمانے بھی اپنے مفاد کے مطابق طے کرتا ہے۔ مزدور جب خون پسینہ بہا کر اجرت مانگتا ہے تو اسے لالچی کہا جاتا ہے، مگر جب سرمایہ دار اسی محنت سے کئی گنا منافع کماتا ہے تو اسے کامیاب کاروباری کہا جاتا ہے۔ یہی وہ تضاد ہے جو انسانیت کے چہرے سے انصاف کا نقاب اتار دیتا ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: “خرابی ہے ان کے لیے جو ناپ تول میں کمی کرتے ہیں” (المطفنین:1) یہ آیت اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ معاشی دھوکہ دہی، خواہ کتنی ہی چالاکی سے کی جائے، اللہ کے نزدیک ظلم ہی ہے۔
آج کاروبار کے نام پر لوٹ مار کے کئی روپ سامنے آ چکے ہیں۔ کوئی جعلی ادویات بیچ کر انسانوں کی زندگیوں سے کھیلتا ہے، کوئی مصنوعی مہنگائی پیدا کر کے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالتا ہے، اور کوئی سیاست کے پردے میں قومی خزانہ لوٹ کر اپنی تجوریاں بھرتا ہے۔ ان سب کے پاس ایک ہی بہانہ ہوتا ہے—”یہ کاروبار ہے، یہ نظام ہے”۔ مگر درحقیقت یہ ظلم کا ایک منظم سلسلہ ہے جس نے انسانیت کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا: “من غشنا فلیس منا” “جس نے دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں” (مسلم)۔ یہ حدیث آج کے تجارتی دھوکے باز معاشرے پر صد فیصد صادق آتی ہے۔
معاشی انصاف کا تقاضا ہے کہ دولت کا بہاؤ صرف ایک طبقے تک محدود نہ رہے۔ جب محنت کرنے والا بھوکا سو جائے اور مالدار سود اور ذخیرہ اندوزی سے مزید امیر ہو جائے تو یہ نظام کسی بھی طور اسلامی یا انسانی نہیں کہلا سکتا۔ اسلام نے تجارت کو عبادت کا درجہ دیا ہے مگر شرط یہ رکھی کہ اس میں دیانت، شرافت اور انصاف ہو۔ مگر آج کے تاجروں نے دین کے اصولوں کو فراموش کر کے لالچ، فریب اور استحصال کو اصول بنا لیا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب کاروبار کی تعریف بدل کر ظلم کا پردہ بن جاتی ہے۔
اس المیے کا سب سے خوفناک پہلو یہ ہے کہ معاشرہ بھی اب ان ظالموں کو “قابل” اور “کامیاب” سمجھنے لگا ہے۔ دولت کو عزت کا معیار اور فریب کو ذہانت کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ نوجوان نسل دولت کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے، خواہ اس کے لیے اخلاقیات کا جنازہ کیوں نہ اٹھانا پڑے۔ اس ذہنیت نے انسان کو مشین، رشتوں کو مفادات، اور عزت کو رقم میں تبدیل کر دیا ہے۔
انسانی وقار کی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ ہم کاروبار اور لوٹ مار کے درمیان فرق کو پہچانیں۔ دولت کمانا برائی نہیں، مگر ظلم اور استحصال کے ذریعے کمانا بدترین جرم ہے۔ ہمیں قرآن و سنت کے اس پیغام کو سمجھنا ہوگا کہ رزقِ حلال میں برکت ہے اور حرام دولت میں ذلت۔ جب تک معاشرے کے اہلِ ثروت اپنے کاروبار کو انصاف اور اخلاقیات کے تابع نہیں کرتے، تب تک یہ لوٹ مار “کاروبار” کہلاتی رہے گی، اور غریب کی چیخیں “بازار کے شور” میں دبتی رہیں گی۔
Leave a Reply