rki.news
تحریر:,, طارق محمود
میرج کنسلٹنٹ
ایکسپرٹ میرج بیورو
> “جب قومیں خود کو عقل کے آئینے میں دیکھنا چھوڑ دیتی ہیں، تو تاریخ اُنہیں عبرت کے آئینے میں دکھانے لگتی ہے۔”
سترہویں صدی انسانی تاریخ کا وہ موڑ تھی جہاں عقل نے وحی کے سائے سے نکل کر تجربے اور مشاہدے کو علم کی بنیاد بنایا۔ مغرب نے جب عقل، منطق اور سائنسی تحقیق کو فکری محور قرار دیا، تو ایک نئے تمدن کی بنیاد پڑی۔ اس انقلاب نے انسان کو کائنات کے اسرار سے روشناس کیا، اور دنیا علم، فلسفے، سائنس اور ٹیکنالوجی کے ایک نئے دور میں داخل ہوگئی۔
اسی زمانے میں مسلم دنیا، جو کبھی فکر و علم کا مینار تھی، اپنے ماضی کی تمجید میں محصور ہو گئی۔ ہم نے تغیر کو خطرہ سمجھا، سوال کو گستاخی، اور اجتہاد کو بغاوت قرار دیا۔ یوں فکری زندگی جمود کا شکار ہوگئی اور شعور کی روشنی دھیرے دھیرے بجھنے لگی۔
مسلمانوں کا زوال محض سیاسی یا عسکری شکست کا نام نہیں، بلکہ ایک گہرے فکری و نفسیاتی انہدام کی داستان ہے۔ جب اقوام اپنی ناکامیوں کا محاسبہ نہیں کرتیں تو وہ حقیقت سے دور جا کر خودفریبی کے حصار میں بند ہو جاتی ہیں۔ یہی کیفیت امتِ مسلمہ پر طاری ہوئی۔ ہر شکست کی توجیہ دشمن کی سازش میں تلاش کی گئی، اور ہر زوال کا سبب بیرونی طاقتوں کو ٹھہرایا گیا۔ نتیجتاً داخلی کمزوریوں پر پردہ پڑ گیا اور خوداحتسابی کی صلاحیت معدوم ہو گئی۔ یوں ایک ایسی نفسیات پروان چڑھی جس میں ذمہ داری سے فرار، اور جذباتی تسکین کو فکری بصیرت پر فوقیت حاصل ہو گئی۔
آج کی دنیا جسے اہلِ فکر “نظامِ دجل” کے دور سے تعبیر کرتے ہیں، دراصل اسی زوال کی جدید اور مہذب صورت ہے۔ یہ نظام وہ فکری جال ہے جو انسان کو آزادی کے فریب میں جکڑتا ہے۔ اس کے تین بنیادی ستون ہیں: حقیقت کو مفاد کے تابع کر دینا، علم کو تجارت بنا دینا، اور عقل کو مادیت کے غلام بنا دینا۔ نظامِ دجل نے علم کو سرمایہ، میڈیا کو پراپیگنڈا، سیاست کو تماشہ، اور مذہب کو رسمی نعرہ بنا دیا ہے۔
یہ وہ نظام ہے جو انسان کو محسوس کراتا ہے کہ وہ آزاد ہے، مگر دراصل وہ شعوری غلامی کے سب سے مضبوط قفس میں قید ہے۔
افسوس کہ مسلم دنیا نے اس نظام کا فکری تجزیہ کرنے کے بجائے، اس کی چمک دمک کو ترقی سمجھ لیا۔ ہم نے مغرب کے طرزِ تعلیم کو اپنایا مگر اس کی تحقیقی روح کو کھو دیا۔ ہمارے دینی ادارے عبادت کے مراکز تو رہے، مگر فکر و اجتہاد کے میدان خالی رہ گئے۔ ہمارے حکمران اسلام کے محافظ کہلائے مگر نظامِ عدل اور مساوات سے غافل رہے۔ نتیجتاً ہم نے نہ مغرب کی طرح سائنس کی حقیقت سمجھی، نہ اپنے ماضی کی حکمت کو زندہ رکھا۔ ہم نے شعور کے بجائے نعرہ اپنایا، اور تدبر کے بجائے تعصب۔
نظامِ دجل کی سب سے خطرناک ضرب انسانی ذہن پر ہے۔ وہ قوموں کو حقیقت سے کاٹ کر جذبات میں غرق رکھتا ہے۔ آج امتِ مسلمہ کی نفسیات اسی جال میں بند ہے۔ ہم نے مظلومیت کو تقدیر سمجھ لیا، اور احتجاج کو نجات کا ذریعہ۔ ہمارے ہاں شور زیادہ ہے، شعور کم۔ جذبہ بہت ہے مگر سمت ندارد۔ ہم نے یہ یقین کر لیا کہ ہماری مشکلات کا حل کسی خارجی طاقت کی شکست میں ہے، نہ کہ اپنی اصلاح میں۔ یہی فکری بیماری ہماری اجتماعی روح میں پیوست ہو چکی ہے۔
یہ ذہنی جمود نسل در نسل منتقل ہو رہا ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں تحقیق کے بجائے تقلید، مدارس میں فکر کے بجائے تکرار، اور منبروں پر فہم کے بجائے نعرے کی بالادستی ہے۔ بچوں کو سکھایا جاتا ہے کہ سوال کرنا گستاخی ہے، اور سوچنا بدعت۔ یہی وہ طرزِ فکر ہے جو قوموں کو زندہ نہیں رہنے دیتا۔
تاریخ کا اصول اٹل ہے: قوموں کی بقا تلوار سے نہیں، علم اور اخلاقی تجدید سے ہوتی ہے۔ قرآن نے اسی سچائی کو بیان کیا کہ “بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے۔” مگر ہم نے اس آیت کو ورد بنا لیا، منشور نہیں۔ ہم نے ماضی کو فخر کا نشان تو بنایا مگر سبق کا ذریعہ نہیں۔
آج مسلمانوں کے لیے اصل چیلنج دشمن نہیں، خود ان کا ذہنی غلامی کا ڈھانچہ ہے۔ ہمیں اپنی فکری سمت بدلنی ہوگی۔ ہمیں مذہب کو عقیدے سے آگے عمل میں ڈھالنا ہوگا، اور علم کو محض ذریعہ نہیں، مقصد سمجھنا ہوگا۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ احتجاج کے مقابلے میں تدبر زیادہ مؤثر ہے، اور فتوے سے زیادہ ضروری فکر۔
نظامِ دجل کا خاتمہ تلوار سے نہیں، شعور سے ہوگا۔ وہ شعور جو انسان کو خود آگاہ کرے، جو ماضی کے فریب سے نکال کر حال کے سوالات سے جوڑے۔ ہمیں وہی امت بننا ہوگا جو کبھی “اقرأ” کے حکم سے اٹھی تھی، اور جس نے علم کو عبادت سمجھ کر دنیا کو روشنی دی تھی۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ تاریخ کبھی ٹھہرتی نہیں۔
جو قوم خود کو بدلنے سے انکار کرے،
زمانہ اُسے مٹا کر بدل دیتا ہے۔
> “دنیا کے اس فریب خوردہ نظام میں مسلمان کے لیے سب سے بڑی عبادت سوچنا ہے۔
نظامِ دجل کا مقابلہ تلوار سے نہیں، بصیرت سے ہوگا—
اور بصیرت کی پہلی شرط ہے: خود کو پہچاننا۔”
Leave a Reply