تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
پیارے قارٸین!انسان کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے۔اللہ تعالٰی کی عنایات تو اس قدر وسیع ہیں جن کا شمار نہیں کیا جا سکتا۔اس ذات پاک کی عطاؤں کا جس قدر اور جتنا بھی شکر ادا کیا جاۓ کم ہے۔انسان کی تخلیق قدرت کا سب سے بڑا انعام ہے۔اس کا جسم اور قلب اور دیگر اعضاء تو اس کی کاریگری کا انمول اور قیمتی تحفہ ہیں۔قلب صرف گوشت کا ٹکڑا ہی نہیں بلکہ جسد انسانی میں مرکز ہے۔یہ تمام افعال کو قابو میں کرتا ہے۔قرآن مجید میں اللہ کریم نے 132مرتبہ قلب کا ذکر فرمایا ہے۔یہ تو حقیقت ہے کہ اللہ کریم کی ذات اقدس بہت بلند ہے۔بقول شاعر:-
کامل ہے جو ازل سے وہ ہے کمال ہے تیرا
باقی ہے جو ابد تک وہ ہے جلال تیرا
قلب کی صفائی اللہ کے ذکر اور نیک اعمال سے ہوتی ہے۔بھلائی اور خدمت خلق سے قلبی تسکین بھی ملتی ہے۔اس کے آٸینہ میں مشاہدہ کیا جاۓ تو قلب سے ہی انسان کا کردار بلند ہوتا ہے۔تعلیم تو ماہرین کے مطابق سیکھنے اور سکھانے کا مسلسل عمل ہے۔عہد حاضر کا منظر نامہ تو کٸی سوالات پیدا کرتا ہے۔انسان عصرنو کے مساٸل کا ادراک اور سامنا کیسے کر پاتا ہے؟جدت کردار کی اہمیت کس قدر اہم ہے؟سماج اور معاشرے میں کونسی خوبی انسان کو اوج کمال تک پہنچاتی ہے؟
ان سب سوالات کی اہمیت اپنی جگہ بہت اہم ہے۔اور جوابات کی روشنی میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ انسان رزق حلال کماۓ اور امانت و دیانت کے اصول پر عمل پیرا ہو اور فرائض کی انجام دہی میں کوئی کوتاہی نہ کرے تو اس طرز عمل سے کردار بلند ہوتا ہے۔صداقت اور دیانت سے تو انسان کے اندر ایک تحریک پیدا ہوتی ہے اور بھلاٸی کے کاموں کی طرف رغبت پیدا ہوتی ہے۔اس ضمن میں کردار کی بلندی کے حوالے سے یہ بات کہی جا سکتی ہے۔بقول شاعر:-
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان٬نئی آن
گفتار میں٬کردار میں اللہ کی برہان
بخل٬ضد٬حسد٬جھوٹ٬بد دیانتی٬سے انسان کا قلب متاثر ہوتا ہے ۔ایسے میں نیکی اور بھلاٸی جیسے اوصاف کی ضرورت زیادہ ہے۔یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ نیک اور اچھے اعمال سے نہ صرف انسان کو تسکین ملتی ہے بلکہ تسکین قلب کی قوت بھی ملتی ہے اور جدت کردار کا رتبہ بلند ملتا ہے۔بقول شاعر
سبق پھر پڑھ صداقت کا٬شجاعت کا٬عدالت کا
لیا جاۓ گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
عہد حاضر جسے جدت پسندی کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔انتہائی باریک بینی اور بصیرت سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔قدم قدم پر پر بے شمار مسائل تعاقب میں ہیں جن سے انسان کا کردار متاثر ہونے کے خدشات موجود ہیں۔سماجی رابطوں کے ذریعے اگرچہ معاشرتی زندگی میں آسانیاں ہیں تاہم غیر اسلامی اور اخلاق سوز باتوں کی بناء پر انسان متاثر ہوتا ہے جس کے انتہاٸی خطرناک اثرات سامنے آتے ہیں اور انسان کے کردار پر حرف بھی آنے کے خدشات موجود ہوتے ہیں۔زندگی کے تقاضے پورے کرنے اور کردار کی بلندی کے لیے تعلیم معاونت کرتی اور انسان کی شخصیت و کردار کی تکمیل بھی ہوتی ہے۔زندگی کے تقاضے تو یہی ہوتے ہیں کہ عزت اور قدرومنزلت سے زندہ رہنے کی کوشش کی جاۓ۔اور زبان پر اتنی سی التجا بھی ہونی چاہیے۔بقول شاعر:-
ہو میرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا
مادہ پرستی کا رجحان تو اس قدر غالب کہ انسان محض تفریح طبع کے لیے تو کوشاں ہے لیکن دنیا میں آنے کے مقصد سے غافل ہے۔دنیاوی جاہ و جلال کے لیے تو تمام وسائل بروۓ کار لاۓ جاتے ہیں لیکن عزت نفس کا احساس کبھی مدنظر نہیں رکھا جاتا۔تاریخ کا مطالعہ کریں تو اس کاٸنات میں انسان نے عجب روپ دکھانے کی نادانی کی۔انسانیت کا خون بہانے سے انسان نے گریز تک نہ کیا ۔رب کریم کے ساتھ شرک اور نافرمانی کا ارتکاب کیا گیا۔نمرود٬فرعون٬شداد کا بدنما کردار آج بھی موجود ہے۔زندگی کا اصل مقصد تو قرآن مجید کی تعلیمات اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے آئینہ میں جھانک کر دیکھنے سے ہی معلوم ہوتا ہے۔طاغوتی قوتوں کا مقابلہ ایمان کامل اور سچے جذبے سے کیا جا سکتا ہے۔بقول شاعر:-
بےخطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشاۓ لب بام ابھی
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ایمان اور عشق کس قدر بلند تھا کہ مضبوط کردار کی بنیاد رکھ دی۔انسان کردار کے آئینہ میں کتنا معتبر اور خوبصورت نظر آتا ہے۔غیرت اور حمیت سے زندہ رہنا ہی کردار کی سربلندی ہے۔
تحریر۔فخرالزمان سرحدی
پتہ۔گاؤ ں ڈنگ ٬ڈاک خانہ ریحانہ
تحصیل و ضلع ہری پور
رابطہ۔03123377085
Leave a Reply