(تحریر احسن انصاری)
23 فروری 2025 کو جرمنی اپنی چوتھی قبل از وقت وفاقی انتخابات منعقد کرے گا، جو دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک اہم سیاسی موڑ ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ انتخابات اس وقت ناگزیر ہو گئے جب چانسلر اولاف شولز کی “ٹریفک لائٹ” اتحادی حکومت—جس میں ایس پی ڈی (SPD)، گرین پارٹی، اور ایف ڈی پی (FDP) شامل تھیں—نومبر 2024 میں گر گئی۔ اصل میں ستمبر 2025 میں ہونے والے یہ انتخابات اب جرمنی کی معیشت، امیگریشن پالیسیوں، اور عالمی سفارتی تعلقات پر عوامی ریفرنڈم بن چکے ہیں۔ چونکہ سیاسی منظرنامہ شدید طور پر تقسیم ہو چکا ہے، ان انتخابات کے نتائج نہ صرف جرمنی کے سیاسی مستقبل بلکہ پورے یورپ پر بھی گہرے اثرات مرتب کریں گے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے اور معیشت جمود کا شکار ہے۔
یہ انتخابات کئی بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان سخت مقابلے کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں، جن میں سی ڈی یو/سی ایس یو (CDU/CSU) سب سے آگے ہے اور 30% عوامی حمایت کے ساتھ برتری حاصل کیے ہوئے ہے۔ فریڈرک مرز (Friedrich Merz) کی قیادت میں، یہ جماعت ٹیکسوں میں کمی، سخت امیگریشن کنٹرول، اور چرس کی قانونی حیثیت کو واپس لینے کے وعدے کے ساتھ انتخابی مہم چلا رہی ہے۔ تاہم، مرز کو اس وقت سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب انہوں نے انتہائی دائیں بازو کی جماعت، آلٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ (AfD) کے ساتھ مل کر ایک امیگریشن سے متعلق غیر پابند قرارداد منظور کرانے میں تعاون کیا۔ دوسری طرف، AfD کی 20-21% عوامی حمایت کے ساتھ تیزی سے مقبولیت بڑھ رہی ہے، کیونکہ یہ جماعت امیگریشن مخالف جذبات اور یوکرین کو فوجی امداد روکنے کے وعدے کو بنیاد بنا کر ووٹ حاصل کر رہی ہے۔ ایلس وائیڈل (Alice Weidel) کی قیادت میں، AfD سرحدوں کی بندش، جرمن مارک کی واپسی، اور یورپی یونین سے علیحدگی جیسے سخت گیر اقدامات کی وکالت کر رہی ہے۔
دوسری طرف، ایس پی ڈی (SPD)، جو چانسلر اولاف شولز کی قیادت میں ہے، 15-16% عوامی حمایت کے ساتھ مشکلات کا شکار ہے۔ اتحادی حکومت میں اندرونی اختلافات اور عوامی مقبولیت میں کمی کی وجہ سے ایس پی ڈی کو چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان کی انتخابی مہم میں کم از کم اجرت میں اضافہ، قرضے کی حد میں نرمی، اور یوکرین کے لیے مسلسل حمایت جیسے نکات شامل ہیں۔ گرین پارٹی (The Greens)، جو رابرٹ ہیبیک (Robert Habeck) کی مشترکہ قیادت میں ہے، 12-13% عوامی حمایت کے ساتھ ماحولیاتی سرمایہ کاری اور یورپی اتحاد کی حمایت کرتی ہے، لیکن عوامی دباؤ کے پیش نظر انہوں نے امیگریشن پر اپنے سخت مؤقف میں نرمی کی ہے۔ ایف ڈی پی (FDP)، جو کبھی حکمران اتحاد کا حصہ تھی، اب زوال پذیر ہے اور 4-5% عوامی حمایت کے ساتھ ٹیکسوں میں کمی اور جوہری توانائی کی بحالی کو اپنی انتخابی مہم کا مرکز بنا رہی ہے۔
ان انتخابات میں کچھ بڑے مسائل خاص طور پر نمایاں ہیں۔ معاشی جمود سب سے اہم مسئلہ ہے، کیونکہ جرمنی کی معیشت مسلسل دو سالوں سے سکڑ رہی ہے، جس کی بڑی وجہ توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور بیوروکریسی کی پیچیدگیاں ہیں۔ ایس پی ڈی اور گرین پارٹی اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے قرضوں پر مبنی سرمایہ کاری کی حمایت کرتی ہیں، جبکہ سی ڈی یو اور ایف ڈی پی مالی کفایت شعاری اور ٹیکسوں میں کمی کو ترجیح دے رہی ہیں۔ امیگریشن اور سیکیورٹی بھی اہم مسائل بن چکے ہیں، خاص طور پر مہاجرین کے ملوث ہونے والے حملوں کے بعد عوامی رائے مزید سخت ہو چکی ہے۔ سی ڈی یو اور AfD نے سخت سرحدی کنٹرول اور ملک بدری کے وعدے کیے ہیں، جبکہ گرین پارٹی پناہ کے معاملات کو بیرونی ممالک کے حوالے کرنے کی مخالفت کر رہی ہے۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے، یوکرین کو فوجی امداد ایک اہم مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ زیادہ تر سیاسی جماعتیں یوکرین کے لیے مسلسل امداد کی حامی ہیں، مگر AfD اور BSW (سارہ واگنکنیشٹ الائنس) یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی روکنے اور روس کے ساتھ مذاکرات کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
انتخابات میں ایک اور بڑی تبدیلی 2023 کے انتخابی اصلاحات کے ذریعے آئی ہے، جس کے تحت بُنڈسٹاگ (جرمن پارلیمنٹ) کی نشستوں کی حد 630 کر دی گئی۔ اس اصلاحات کے ذریعے اضافی نشستوں (overhang seats) کو ختم کر دیا گیا ہے اور پارلیمانی داخلے کے لیے کم از کم 5% ووٹ حاصل کرنے کی شرط مزید سخت کر دی گئی ہے۔ تاہم، ایک آئینی عدالت کے حالیہ فیصلے کے مطابق، وہ جماعتیں جو کم از کم تین براہ راست نشستیں جیتیں گی، وہ 5% کی حد پوری نہ کرنے کے باوجود پارلیمنٹ میں شامل ہو سکیں گی۔
چونکہ کسی بھی پارٹی کی واضح اکثریت حاصل کرنے کی امید نہیں ہے، اس لیے اتحادی حکومت کے قیام کے لیے مذاکرات ناگزیر ہوں گے۔ سی ڈی یو/سی ایس یو اور ایس پی ڈی کا اتحاد، جو ماضی میں “گرینڈ کولیشن” کہلاتا تھا، ممکن ہے، لیکن ایس پی ڈی کے تیسرے نمبر پر ہونے کی وجہ سے یہ مشکل نظر آ رہا ہے۔ سی ڈی یو/سی ایس یو اور گرین پارٹی کے درمیان ایک “بلیک-گرین” اتحاد ممکن ہے، لیکن اس کے لیے ماحولیاتی پالیسیوں پر سمجھوتہ کرنا ہوگا۔ ایس پی ڈی، گرینز، اور ایف ڈی پی کا اتحاد کمزور نظر آتا ہے کیونکہ ایف ڈی پی کی مقبولیت میں نمایاں کمی آ چکی ہے۔ دوسری طرف، AfD کے بڑھتے ہوئے ووٹ بینک کے باوجود، کوئی بھی مرکزی جماعت ان کے ساتھ اتحاد کرنے کو تیار نہیں۔
رائے دہندگان کی مجموعی سوچ میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، رہائش کے بحران، اور حکومت پر اعتماد میں کمی جیسے مسائل نمایاں ہیں، کیونکہ عوامی اعتماد 50% تک گر چکا ہے۔ اس کے ساتھ ہی، یہ انتخابات جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی سیاست کے خلاف دفاعی دیوار کے طور پر بھی دیکھے جا رہے ہیں، کیونکہ مرز کی سی ڈی یو پر AfD کی پالیسیوں کو اپنانے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 38% ووٹرز اب بھی غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں اور اپنی سیاسی ترجیحات کو سمجھنے کے لیے Wahl-O-Mat جیسے آن لائن ٹولز کا استعمال کر رہے ہیں۔
2025 کے یہ قبل از وقت انتخابات جرمنی کے لیے ایک نازک موڑ ثابت ہو سکتے ہیں۔ اگر مرز کی قیادت میں سی ڈی یو دوبارہ طاقت حاصل کر لیتی ہے یا پھر ملک ایک بار پھر کمزور اتحادی حکومتوں کے راستے پر چلتا ہے، تو اس سے جرمنی کی معیشت، امیگریشن پالیسیوں، اور عالمی سیاست میں کردار پر طویل مدتی اثرات مرتب ہوں گے۔ یورپ کی نظریں اس انتخاب پر مرکوز ہیں، کیونکہ جرمنی کا فیصلہ پورے خطے میں اس اثرات مرتب ہونگے ۔
Leave a Reply