rki.news
تحریر: ڈاکٹر منور احمد کنڈے۔ ٹیلفورڈ۔ انگلینڈ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جرمن سربراہِ حکومت چانسلر فریڈرک مرز نے حالیہ گروہِ سات G7 کے اجلاس میں اپنی تقریر کے دوران جو خیالات پیش کیے، وہ نہ صرف یورپی پالیسی کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ کی نئی تشکیل پاتی ہوئی سیاسی صورت حال پر مغرب کے نقطۂ نظر کو بھی واضح کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ایران میں موجود مذہبی قیادت، جسے عمومی طور پر “ملاؤں کی حکومت” کہا جاتا ہے، اسرائیل کی سخت فوجی کارروائیوں کے بعد اب اس قدر کمزور ہو چکی ہے کہ وہ نہ صرف ایٹمی طاقت بننے کے خواب کو بھول چکی ہے بلکہ داخلی و بیرونی سطح پر اس کی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ مرز کے الفاظ میں یہ حکومت “انتہائی کمزور” ہو چکی ہے، اور غالب امکان ہے کہ یہ دوبارہ اپنی سابقہ طاقت و وقار حاصل نہ کر سکے گی۔
یہ بیان دراصل اسرائیل کے حالیہ بڑے حملے کے تناظر میں سامنے آیا، جس کا مقصد ایران کی جوہری تنصیبات کو نقصان پہنچانا تھا۔ جرمن سربراہِ حکومت نے نہ صرف اس حملے کو سراہا بلکہ اسے مغرب کے لیے ایک “گندا مگر ضروری کام” قرار دیا جو اسرائیل نے انجام دیا تاکہ پورے خطے کو ممکنہ ایٹمی تصادم سے بچایا جا سکے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اسرائیل کی یہ کارروائی نہ صرف اپنے دفاع میں کی گئی بلکہ یورپی ممالک کے اس مشترکہ مفاد کی نگہبانی بھی تھی کہ ایران ایٹمی صلاحیت حاصل نہ کر سکے۔
اسرائیل کی اس جنگی حکمتِ عملی کے بعد، جرمنی یہ سمجھتا ہے کہ ایران کی مذہبی قیادت کا جوش اور اثر و رسوخ اب اس سطح پر نہیں رہا جہاں وہ عالمی سطح پر خطرہ بن سکے۔ داخلی طور پر بھی ایران میں عوامی بے چینی، اقتصادی زوال اور عالمی پابندیوں نے ملاؤں کی اس مذہبی حکومت کو ایک متزلزل نظام میں بدل دیا ہے۔ جرمنی کے مطابق، یہ کمزوری ایران کے لیے اب ایک ایسے موڑ کی حیثیت رکھتی ہے جہاں یا تو وہ مکمل تنہائی میں چلا جائے گا یا پھر بات چیت کا راستہ اپنائے گا۔
مرز نے اپنی تقریر میں اس بات پر زور دیا کہ اگرچہ ایران کی موجودہ قیادت نہایت کمزور ہو چکی ہے، پھر بھی بات چیت کے دروازے مکمل طور پر بند نہیں کیے گئے۔ جرمنی، فرانس اور برطانیہ اب بھی اس بات کے خواہاں ہیں کہ ایران سے گفت و شنید کے ذریعے مسائل کا حل نکالا جائے، بشرطیکہ ایران اپنے رویے میں نرمی پیدا کرے اور سنجیدگی سے دنیا کے خدشات کو سنے۔
یہ بیان اس بات کی علامت ہے کہ جرمنی اب صرف امن کی بات نہیں کر رہا، بلکہ وہ خطے میں طاقت کے توازن، دفاعی حکمتِ عملی، اور سفارتی بصیرت تینوں پہلوؤں کو بیک وقت بروئے کار لا کر حالات کو سنبھالنے کا خواہاں ہے۔ ایران کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ ایک طرف اس کی حکومت کو فوجی اور اقتصادی محاذ پر شدید نقصان پہنچا ہے، اور دوسری طرف اس کی فکری بنیاد کو بھی عالمی سطح پر چیلنج کا سامنا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں اگر وہ پھر بھی ایٹمی طاقت بننے کے خواب دیکھتا ہے تو یہ محض خوش فہمی ہوگی، حقیقت سے دوری ہوگی۔
مرز کا بیان ایک طرف اسرائیل کی پالیسیوں کی تائید ہے، اور دوسری طرف ایران کے لیے ایک انتباہ بھی کہ دنیا اب اس کی مذہبی سخت گیری اور ایٹمی عزائم کو مزید برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اگر ایران واقعی اپنی خودمختاری اور قومی وقار کا تحفظ چاہتا ہے تو اسے عالمی اصولوں کے مطابق چلنا ہوگا اور طاقت کے بجائے دانائی اور حکمت کا راستہ اختیار کرنا ہوگا—
۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1. “Germany’s Merz says diplomacy offer to now-weakened Iran still stands”, خبر رائٹرز، اشاعت 17 جون 2025
2. “جرمن چانسلر فریڈرک مرز کا بیان: ملاؤں کی حکومت شدید کمزور ہو چکی ہے”، روزنامہ ڈی ویلٹ (جرمنی)، اشاعت 17 جون 2025
Leave a Reply