Today ePaper
Rahbar e Kisan International

جناب ڈاکٹر انوار احمد

Articles , / Friday, July 4th, 2025

rki.news

تحریر : حافظہ عالیہ سعید ‘ سابقہ طالب علم ویمن یو نیورسٹی ملتان

ضمیر عصر حاضر جناب ڈاکٹر انوار احمد ” ایک عہد ساز شخصیت ہیں۔ وہ انتہائی شفیق استاد، منکسر المزاج انسان اور بذلہ سنج ادیب ہیں آپ میرے استادوں کے استاد ہیں۔ ہم ان کا تعارف کیا کروایں گے یہ تو چھوٹا منہ بڑی بات کے مصداق ہے۔ سن 2020 میں شعبہ اردو سے وابستگی ہوئی تو یہ نام اکثر کان کے پردوں سے ٹکراتا تھا” ڈاکٹر انوار احمد” میں اکثر سہیلیوں سے پوچھتی تو جواب ملتا کہ جناب ڈاکٹر ‘ میڈم ایچ-او-ڈی کے استاد ہیں۔

‌پھر 6 اکتوبر 2021 کا سورج مجھے دیکھنا نصیب ہوا شعبہ اردو نے یک روزہ سیمینار کا انعقاد کیا جس میں ڈاکٹر صاحب کو بطور مہمان خصوصی مدعو کیا گیا۔ پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا جب ڈاکٹر صاحب کو اسٹیج پر دعوت دی گئی۔ اور میں لاچار شیدائی دور بیٹھی صرف ان کی آواز سن سکتی تھی۔

‌ ~ دیکھنا بھی تو انھیں دور سے دیکھا کرنا

بی بی حاجرہ کی دعا کے مصداق مجھے بھی جناب استاد محترم کا تلامذہ نصیب ہوا۔ ڈاکٹر صاحب کا قد ذرا لمبا مگر درمیانہ،رنگت سانولی،بھاری بھر کم جسامت،کترواں مونچھیں،روشن اور واضح
آنکھیں، گول چہرہ،باچھیں کھول کر ہنستے تھے کشادہ پیشانی کے ساتھ سر پر گنتی کے چند بال تھے اور تالو کی سیدھ ہر ایک سیدھا کھڑا بال تھا۔ روز سوچتی تھی یہ کب ٹوٹے گا مگر بال بھی سر کی طرح سخت جان تھا نہیں ٹوٹا۔

ڈاکٹر انوار احمد کے بزرگوار تقسیم سے قبل ہوشیار پور سے رحیم یار خان اور پھر ملتان آکر آباد ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب کی پیدائش 11 جون 1947 کو ملتان کے ایک علمی گھرانے میں ہوئی۔ آپ کے والد ڈاک خانے میں سب پوسٹ ماسٹر تھے اور والدہ بیگم بی بی اللہ والی تھیں۔ چوتھی جماعت میں ہی تھے کہ ان کے والد آپریشن سے جان بر نہ ہوسکے اور وفات پا گئے۔ یوں ڈاکٹر صاحب پر کمسنی میں ہی یتیمی کا قہر ٹوٹا۔ کسی دانا نے کیا خوب کہا ہے زندگی کی ستم ظریفی سے دو ہی لوگ واقف ہوتے ہیں ایک یتیم اور دوسرا بوڑھی کنواری۔ ڈاکٹر صاحب کے والد نے ترکے میں پانچ اولادیں چھوڑیں پھر چھوٹے بھائی کی جوان موت کا صدمہ چھوٹی عمر سے ہی گھر کے کفیل بنے اور اپنی والدہ کے ساتھ گل ٹکس کی چادروں کے پلو بنانے لگے” یادگار زمانہ ہیں کچھ لوگ” کے ابتدائی صفحات پڑھنے کے بعد شاید میری سمجھ میں آگیا کی سر باچھیں کھول کر کیوں ہنستے تھے۔

میقات پنجم میں استاد محترم کے ساتھ یادگار دن گزرے۔ اور پھر وقت اتنی تیزی سے گزرا ہے کہ اب میرے پاس سنانے کو ماضی کے سنہری قصے ہیں جو تاریکی میں روشنی کا کام دیتے ہیں۔ کم و بیش ستمبر 2023 کی کوئی تاریخ ہوگی جب ڈاکٹر صاحب اپنی انگوری گاڑی پر شعبے میں داخل ہوئے۔ ہمارے اساتذہ نے سر کے سامنے ہماری تعریفوں کے جو بڑے بڑے پل تعمیر کئے تھے وہ اس دن خاکستر ہوئے جب ڈاکٹر صاحب کو علم ہوا کہ ہم فراز کو فراض اور ہدایت کو حدایت لکھتے ہیں۔ پھر کیا تھا اس دن سے کسی ناگہانی صورتحال سے بچنے کے لیے ہمارے سوالیہ پرچے ہر لکھنے لگے۔ ” دس سطروں میں جواب دیں( مہربانی)” ۔

ڈاکٹر صاحب نے تدریس کے ذریعے انسانیت کی جتنی خدمت کی ہے وہ میرے نزدیک بہت سے زاہدوں اور عابدوں کی شب گزاریوں پر بھاری ہے۔ افسانے ہوں یا خاکے ڈاکٹر صاحب کی پہنچان ان کے وضع دار جملے ہیں۔آپ ایک بذلہ سنج ادیب ہیں بڑی سے بڑی نوک جھونک مزاح کے اس پیرائے میں کرتے ہیں کہ آپ کا ڈسا پانی بھی نہ مانگے۔ سخت سے سخت جملہ بھی ایسی لطافت سے لکھتے ہیں کہ قاری مسکرائے بغیر نہیں رہتا۔ آپ کا مصورانہ طرز ادا، ابلاغ پر قدرت،الفاظ کی رنگینی،اسلوب کی جدت، یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوزے میں دریا بند ہے۔آپ اردو افسانہ ایک صدی کا قصہ، آخری خط، پہلے سے سنی ہوئی کہانی، ایک ہی کہانی، خواجہ فرید کے تین رنگ کے علاوہ کئی لازوال کتابوں کے خالق ہیں۔

ڈاکٹر صاحب کی ادبی خدمات پر جتنی بات کریں کم ہے۔ 2011 میں آپ کو ہائر ایجوکیشن کمیشن بیسٹ ٹیچر ایوارڈ سے نوازا گیا- 2012 میں ادارہ قومی زبان کے چیرمین رہے۔ اردو ادب کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں آپ کو “صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی” اور “سعدی لیٹریسی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

ایک خوبصورت یاداشت جو آج بھی ذہن کے کسی دریچے میں کھڑی میرے لئے وجہ فرحت ہے کہ جب میقات کے آخری ایام میں، میں نے اپنی پرانی سیاہ ڈائری جو مجھے بھائی نے تحفہ میں دی تھی استاد محترم کی جانب دھکیلی اور پر اعتماد لہجے میں کہا” مجھے آپ کا آٹوگراف چاہئے” ڈاکٹر صاحب نے میری جانب دیکھا اور زیر لب مسکرائے اور محبت سے کہا” میرے آٹوگراف کا کیا کرنا ہے میں تو تم لوگوں کے درمیان ہوں” لیکن پھر میرے اصرار پر ڈائری تھامی اور اس پر لکھا ” ذوق شعر رکھنے والے جن شاگردوں نے متاثر کیا ان میں آپ ہیں” ۔ یہ کلمات میرا گراں بہا خزانہ ہیں۔

بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان ‘ انقرہ یونیورسٹی ترکی سالوں اردو کی خدمت کرتے رہے۔ پھر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد، اوساکا یونیورسٹی جاپان میں بھی درس و تدریس سے منسلک رہے۔ ڈائریکٹر جنرل سیالکوٹ کیمپس،گجرات یونیورسٹی سیالکوٹ کے علاوہ کتنے ہی ادارے اور سیکنڑوں شاگرد ہیں جو ڈاکٹر صاحب کا نام احترام اور اعزاز سے لیتے ہیں۔ استاد محترم کے بارے میں جتنا لکھوں کم ہے دوران تدریس اکثر کہا کرتے تھے۔ کتاب کو بڑی توجہ سے پڑھو پھر اپنی سوجھ بوجھ سے جو سمجھ آئے وہ جواب لکھو۔ مجھے یہ نہیں چاہیے کہ سلیم اختر نے اس کے بارے میں کیا لکھا یا فرمان فتح پوری نے کیا لکھا مجھے چاہیے کہ عالیہ سعید نے کیا لکھا۔ ڈاکٹر صاحب اپنے شاگردوں میں نئی روح پھونکے والے شفیق اور مہربان استاد ہیں۔ یہ جو ہم چند جملے لکمنے کے قابل ہوئے ہیں استاد محترم کی بدولت ہے۔وہ اپنی کارگزاری کا صلہ کسی اور ہی بارگاہ سے پائیں گے۔

ایک دن استاد محترم کلاس پڑھانے آئے تو ہاتھ میں چند کتب تھیں ہم سے گویا ہوئے یہ کتاب کل آپ سب پڑھ کر آئیں گے اس میں ایک کردار ہے عدنان کل آپ سب سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ پھر کیا تھا اگلے روز آدھی سے زیادہ کلاس عدنان کی کہانی سنانے کو تیار تھی۔ سب کو داستانِ عدنان سنانے کو برابر موقع ملا۔ ڈاکٹر صاحب بدستور مسکراتے رہے اور کہا ” آپ تمام کتنے قابل رحم ہیں یار اس کتاب میں کوئی عدنان ہے ہی نہیں” آپ یقین کریں ہم واقع قابل رحم ہیں۔ خیر جاتے جاتے عقیدت احترام اور محبت سے۔

ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International