١٩٠٥ میں انگریزوں کا ایک فیصلہ مسلمانوں کے حق میں گیا ۔ ۔ ۔ اور وہ تھا بنگال کی تقسیم ، جسکی وجہ سے مسلمانوں کو بنگال میں کافی فائدہ ہوا ، ٣٠ دسمبر ١٩٠٦ کو سر سید کی محمڈن ایجوکیشن کانفرنس میں جو ڈھاکہ میں ہوئی نواب سلیم اللہ کی تجویز پر مسلمانوں کی ایک الگ سیاسی تنظیم کی تجویز کو پسند کیا گیا اور نواب وقار الملک ( جو اس جلسے کی صدارت کر رہے تھے ) حمایت کی اور یوں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام ہوا ۔ ۔ ۔ جسکا ہیڈ کواٹر لکھنؤ میں تھا اور سر آغآ خان اسکے پہلے صدر تھے ۔ ۔ ۔ شروع میں اسکے چھے نائب صدور بھی تھے اور ابتدائی اراکین کی تعداد چار سو کے قریب تھی ۔ ۔ ۔ مولانا محمد علی جوہر نے اسکا منشور لکھا اور سید امیر علی نے ١٩٠٨ میں لندن میں بھی مسلم لیگ کی شاخ قائم کی جسنے محمد علی جنا کو ہندوستان لانے پر آمادہ کیا ۔ ۔ ۔ ۔
اور دوسری طرف ١٩١٥ میں گاندھی جی اپنے رفقاء کے اسرار پر ساؤتھ افریقہ سے واپس آئے جو کہ ١٩٠٢ میں ہندوستان چھوڑ کر چلے گئے تھے ۔ ۔ ۔
یہ عجیب مماثلت ہے دونوں رہنماؤں میں (جناح اور گاندھی میں) کہ دونوں نے وکالت کی تعلیم حاصل کی دونوں نے پریکٹیس ہندوستان میں شروع کی ، دونوں ہی مایوس ہو کر ہندوستان چھوڑگئے اور دونوں ہی اپنے دوستوں کے کہنے پر واپس ہندوستان آئے اور اپنی اپنی قوم کو انگریزوں سے آزادی دلوائی ۔ ۔ ۔ جنگ ایک تھی ، مگر اسکے انجام دو ہوئے ۔ ۔ ۔۔
دو عظیم رہنما جناح اور گاندھی شروع میں اکھٹھے تھے اور دونوں ہی ہندو مسلم اتحاد کے قائل تھے اسلئے ایک عرصے تک مسلم لیگ اور کانگریس میں کوئی خاص اختلاف سامنے نہ آیا ۔ ۔ ۔ بلکے گاندھی اور جناح کے درمیان مسلسل رابطہ رہا ۔ ۔ ۔ اور اسی کی وجہ سے ١٩١٥ میں مسلم لیگ اور کانگریس نے ملکر اصلاحات کو مزید وسعت دینے کی ڈیمانڈ کی اور اس میں سولہ رکنی وفد نے وائسرائے سے ملکر اسے ہندوستان میں ہندوستانیوں کی حکومت کی تجویز دی ۔ ۔۔ اور ان کوششوں میں جناح پیش پیش تھے اور اسی وجہ سے انہیں سروجنی نائیڈو نے ہندو مسلم اتحاد کا سفیر قرار دیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
(جاری ہے )
Leave a Reply