ناز پروین
ہیپاٹائٹس سی یا کالا یرقان ایک انتہائی خطرناک مرض ہے۔ عام طور پر کالے یرقان کو ہیپاٹائٹس بی یا سی بھی کہا جاتا ہے۔ کالا یرقان ایک وائرل انفیکشن ہے جس کی وجہ سے جگر سوزش کا شکار ہو جاتا ہے، اور کئی مرتبہ اس کی وجہ سے جگر کو شدید نقصان بھی پہنچتا ہے۔ یہ انفیکشن بہت سے لوگوں کے لیے خاموش قاتل ثابت ہوتا ہے۔اگر اس کا علاج نہ کیا جائے تو ہیپاٹائٹس سی بعض اوقات سنگین، جان لیوا حالات جیسے جگر کے کینسر اور جگر کی ناکامی کا باعث بن سکتا ہے۔
پاکستان ہیلتھ ریسرچ کونسل کی ”رسک فیکٹرز آف ہیپاٹائٹس سی اِن پاکستان‘‘ کے نام سے شائع ہونے والی تحقیقی رپورٹ کے مطابق انجیکشن اور بلڈ ہیپاٹائٹس سی پھیلانے کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔ ”ماضی میں جو شخص سالانہ چار سے پانچ انجیکشن لگواتا رہا اس کے ہیپاٹائٹس سی میں مبتلا ہونے کے امکانات نو سے گیارہ فیصد زیادہ تھے۔” اس کے علاؤہ ”خون کا تبادلہ، سرجیکل آپریشن اور حجاموں سے شیو وغیرہ کے دوران کٹ لگنا عمومی وجوہات ہیں۔”
اس کے مریضوں کو خاص کر ہدایت کی جاتی ہے کہ علاج کے دوران کوشش کریں کہ اپنا ٹوتھ برش یا ایسی کوئی بھی چیز جس پہ ان کا خون لگ سکتا ہے وہ الگ تھلگ رکھیں کیونکہ یہ بیماری خون کے ذریعے ارد گرد کے لوگوں تک منتقل ہو سکتی ہے۔ آپ کہیں گے کہ میں ہیپاٹائٹس سی کے بارے میں بات کیوں کر رہی ہوں۔بسا اوقات آپ کے اپنے بنائے ہوئے بت آپ کی آنکھوں کے سامنے پاش پاش ہو جاتے ہیں۔کچھ ایسا ہی میرے ساتھ بھی ہوا۔ایک ٹی وی چینل پر کلین شیو صاحب عرصہ دراز سے بہت خوبصورت مذہبی پروگرام کرتے آرہےہیں۔ میں اس روشن خیال مذہبی اینکر کی مداح ہوں ۔ میں خود بھی ان کی بتائی ہوئی تسبیحات کا ورد کرتی ہوں۔ان کے پروگرام میں زیادہ تر معاشرتی اور سماجی مسائل پر گفتگو کی جاتی ہے۔لائیو فون کالز پر لوگوں کے مسائل سن کر بہت درد مندی سے تسبیحات بتاتے ہیں۔ان کے پروگرام کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ان معاشرتی اور سماجی مسائل پر بھی کھل کر گفتگو کرتے ہیں جنہیں عمومی طور پر ہمارے معاشرے میں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ۔ان کے اس پروگرام میں موضوع کی مناسبت سے مہمان بلائے جاتے ہیں۔ایک ایسے ہی پروگرام کو میں دیکھنے بیٹھی۔یہ پروگرام سورہ رحمان کی برکت اور اثر انگیزی کے متعلق تھا۔مہمانوں میں ایک سینیئر ڈاکٹر اور ایک مولانا صاحب تھے۔سینیئر ڈاکٹر نے اپنی کہانی سناتے ہوئے بتایا کہ وہ ہیپاٹائٹس سی کی ایک مریضہ کا آپریشن کر رہے تھے کہ نا تجربہ کار نرس کی غلطی کی وجہ سے ان کو اس مریضہ کے لگائے ہوئے انجیکشن کی سوئی چبھ گئی۔وہ بہت پریشان ہو گئے۔کچھ دن کے بعد ٹیسٹ کروایا تو وہ ہیپاٹائٹس سی پازیٹو تھے۔ انہوں نے اپنے ایک سینیئر ڈاکٹر سے مشورہ کیا تو اس نے کہا اس بات کو کسی کے ساتھ شیئر مت کرو ۔۔تم ایک سرجن ہو ٹھیک ہونے تک تمہیں معطل بھی کیا جا سکتا ہے ۔ڈاکٹر صاحب کہنے لگے میرے اس وقت دو چھوٹے بچے تھے جبکہ میری بیوی حاملہ تھی ۔انہوں نے کہا میں نے اپنا علاج بھی جاری رکھا اور ساتھ میں دو اور ہسپتالوں میں نوکری بھی کر لی تاکہ میرا زیادہ وقت گھر سے باہر رہے اور میرے ننھے بچے اور حاملہ بیوی مجھ سے دور رہیں ۔یہ سن کر میں ہکا بکا رہ گئی ۔ڈاکٹر صاحب مزید کہنے لگے اسی دوران مجھے ایک دوست نے سورہ رحمان کے بارے میں بتایا کہ تم روزانہ اسے بلند آواز میں سنا کرو۔ اللہ تمہیں شفا دے گا ۔وہ چند ماہ تک لگاتار سورہ رحمان سنتے رہے ۔انہوں نے بتایا کہ جب انہوں نے ٹیسٹ کروائے وہ مکمل طور پر صحت یاب ہو چکے تھے۔ان کی باتیں سن کر پروگرام کے میزبان اور مولانا صاحب سر دھننے لگے ۔سورہ رحمان کی فضیلت بیان کرنے لگے ۔لیکن میں حیران پریشان سوچتی رہی ۔۔ڈاکٹروں کے بھی کچھ اخلاقی فرائض اور ذمہ داریاں ہوتی ہیں ۔جب انہیں پتہ چل گیا کہ وہ ایک خطرناک مرض میں مبتلا ہیں اور ان کی وجہ سے دوسرے مریض بھی اس مرض کا شکار ہو سکتے ہیں ۔انہیں اپنی حاملہ بیوی اور چھوٹے بچوں کا تو خیال تھا کہ وہ کہیں ان کی وجہ سے اس مرض کا شکار نہ ہو جائیں ۔انہیں اس مرض سے بچانے کے لیے انہوں نے دو اور ہسپتالوں میں نوکری کر لی کہ کم سے کم وقت گھر میں گزاریں لیکن ان سینکڑوں مریضوں کا نہ سوچا اس دوران جن کا انہوں نے علاج کیا۔ ان کا آپریشن کیا ۔انہیں انجکشن لگائے ۔کیا وہ مریض انسان نہ تھے ۔ان مریضوں کا مرتبہ ڈاکٹر صاحب کے اپنے گھر والوں کے برابر نہ تھا ۔انہیں اس بات کا خیال نہ تھا کہ یہ سینکڑوں مریض جن کا انہوں نے علاج کیا ان کی وجہ سے اس جان لیوا مرض کا شکار ہو سکتے تھے اور نہ جانے کتنے ہی مریض ہو سکتا ہے ان کی وجہ سے بیمار پڑ گئے ہوں۔ہم بحیثیت مسلمان قرآن پر مکمل یقین رکھتے ہیں۔میں خود روزانہ صبح اٹھ کر موبائل پر بلند آواز میں سورہ رحمان لگا دیتی ہوں ۔پورا گھر سورہ رحمان کی تلاوت سے گونجتا ہے ۔سورہ رحمان کی فضیلت اور شفاعت کی اثر انگیزی کی میں نہ صرف خود معتقد ہوں بلکہ دوسروں کو بھی بتاتی ہوں۔لیکن اس پروگرام کے میزبان جو خود ایک اعلی تعلیم یافتہ شخص تھے اور مہمان ڈاکٹر کیا اس بات سے ناواقف تھے کہ نہ جانے انہوں نےاپنی خود غرضی کی وجہ سے کتنی معصوم زندگیوں کو داؤ پہ لگا دیا۔آخر روشن خیال میزبان نے انہیں کیوں نہ ٹوکا ۔۔انہیں یہ کیوں نہ کہا کہ وہ صحت مند ہونے تک چھٹی پہ چلے جاتے ۔اپنے گھر والوں کو اصلی وجہ بتا کے کہیں الگ تھلگ رہ لیتے ۔ڈاکٹر تو لوگوں کو صحت کا تحفہ دیتے ہیں ۔لیکن انہوں نے تو اپنی طبی پیشہ ورانہ اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ۔میں کوئی ڈاکٹر نہیں ایک عام سی عورت ہوں لیکن مجھے بھی ان ڈاکٹر صاحب کا یہ بیان بہت عجیب لگا ۔کہ وہ یوں ٹی وی پر آ کر سر عام اقرار کر رہے ہیں کہ انہوں نے کتنی زندگیوں کو داؤ پہ لگا دیا ۔سورہ رحمان کی شفاعت کا تو وہ بتاتے رہے لیکن کیا بحیثیت مسلمان ،ایک انسان انہوں نے اپنا حق ادا کیا۔
۔۔۔ ایک حدیث میں ہے کہ ہمیشہ سچ بولو! کیوں کہ سچ نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف، ایک شخص مستقل سچ بولتا رہتا ہے حتیٰ کہ عند اللہ سچا لکھ دیا جاتا ہے، اور جھوٹ سے بچو، کیوں کہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے اور برائی جہنم کی طرف۔
یوں ڈاکٹر صاحب نے سچ چھپا کر برائی کا راستہ اختیار کر لیا ۔ایک طرف تو دن رات سورہ رحمان سنتے رہے اور دوسری طرف معصوم مریضوں کی جان سے کھیلتے رہے۔
پاکستان میں ڈاکٹر کوئی غلطی کریں تو ان کے خلاف کارروائی ہونے کا چانس نہ ہونے کے برابر ہے۔ لیکن ڈاکٹروں کی غلطیوں کی خبریں ہر روز اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔ ان خبروں میں کچھ محض افواہوں اور مریضوں یا ان کے اقربا کے اندازوں پر مشتمل ہوتی ہیں لیکن کم از کم ساٹھ فیصد کیسوں میں ڈاکٹروں کی غلطی موجود ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ غلطی کرنا انسانوں کی صفت ہے اور اس کا مداوا دنیا کے ترقی یافتہ ترین ملک میں بھی ممکن نہیں۔
البتہ ڈاکٹروں کا احتساب ضروری ہے۔ پنجاب میں ایک ہیلتھ کمیشن موجود ہے جو ریٹائر پروفیسروں کی آماجگاہ ہے۔ چند سالوں سے کم از کم پنجاب میں Medical Ethics نصاب کا حصہ ہیں لیکن جب تک اس موضوع پر پکڑ نہیں ہو گی، حالات کی بہتری بہت مشکل ہے۔
۔ڈاکٹر صاحب کی باتیں سن کر جانے مجھے فلم سرفروش کا صبیحہ اور سنتوش کے درمیان مکالمہ یاد آگیا جب سنتوش صبیحہ کے گھر چوری کرنے کے لیے جاتا ہے۔۔ اس دوران نماز کا وقت ہوتا ہے اور وہ نماز پڑھنے لگتا ہے۔جب صبیحہ اس سے پوچھتی ہے تو وہ جواب دیتا ہے ”چوری میرا پیشہ ہے اور نماز میرا فرض “
ہم بھی حقوق العباد اور اخلاقیات کا جنازہ نکال رہے ہیں جبکہ دوسری طرف مساجد بھری ہوتی ہیں عمرے کے لیے جانے والوں میں ہر سال لگاتار اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔لگتا ہے ہم من حیث القوم اس مکالمے پر عمل کر رہے ہیں۔اکبر الہ ابادی کے بقول
”جگر میں درد بھی ہے اور دل نڈھال بھی ہے
بتائے حالت دل کون مجھ میں حال بھی ہے
مرے ہوئے ہو بتوں پر جو دل سے تم اکبرؔ
خدا کو منہ بھی دکھانا ہے کچھ خیال بھی ہے
Leave a Reply