تازہ ترین / Latest
  Tuesday, October 22nd 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

جھوٹی شان و شوکت ،صبر اور فراڈ کا ماسک

Articles , Snippets , / Monday, March 25th, 2024

دنیا قوس قزح کے رنگوں سے سجی ہوی پھلکاری ہے. بھانت بھانت کے لوگ ،ہر طرح کا حسن بے بہا، ہر رنگ کا انسان، رنگ برنگے ملبوسات، ہر انسان کی اپنی اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کی داستان امیر حمزہ. اور ہر شخص اپنے اپنے کام میں مگن، اپنے حصے کے کام کرتا کرتا انھی قوس قزح کے رنگوں میں مدغم ہو جاتا ہے. پیشے، رتبے، حیثیت، عہدے، رشتے ہر شے اپنی اپنی جگہ پر ہی اچھی لگتی ہے. اور یہ قوس قزح جیسی ست رنگی چال ہی کاینات کی روانی کو رواں دواں رکھنے کا تیر بہدف نسخہ ہے. شیکسپیئر نے بالکل درست کہا تھا کہ یہ دنیا ایک سٹیج ہے جہاں ہر شخص اپنا اپنا کردار نبھا کے چلا جاتا ہے. صدیوں پہ صدیاں بیت گءیں حضرت آدم و بی بی حوا سے شروع ہونے والی نسل انسانی کءی پشتوں کے جھولے جھولتی جھلاتی آج کے ماڈرن اور الیکٹرانک زمانے میں داخل ہو چکی ہے.
کبھی بھی سچے پیار اور سچے رشتوں کو کسی قسم کے ماسک، تصنع یا بناوٹ کی ضرورت نہیں ہوتی. خلوص، ملمع سازی کی ملاوٹ اور سازش سے یکسر آزاد ہے.
ہمیں تو اخلاقی اقدار کی پامالی نے ویسے ہی پستی کی اتاہ گہرائیوں میں پھینک دیا تھا . رہی سہی کسر زندگی کے روز مرہ لین دین میں ملاوٹ نامی گراوٹ نے پوری کر دی ہے. ذرا غور فرمائیے گا دودہ دہی سے لیکر آٹے چاول تک اور آٹے چاول سے لیکر مرچ مصالحے تک، ادویات سے علاج معالجے تک اور علاج معالجے سے گھریلو اور کمرشل عمارتوں کی تعمیر تک،کاروبار زندگی کا کون سا ایسا قدم ہے جو ہم نیک نیتی اور ایمانداری سے اٹھاتے اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں ارے ہم تو وہ بدنصیب ہیں جو رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں بھی ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری، ماپ تول میں کمی جیسی مکروہات کو عین عبادت سمجھ کے کرتے ہیں. ہم تو وہ حرماں نصیب ہیں جو زندگی کے ہر گام پہ جھوٹ بولنے کو بہت بڑا کمال سمجھتے ہیں ہم تو وہ بدبخت انسان ہیں کہ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کو دھتکار کے کفران نعمت جیسے گناہ کے بار بار مرتکب ہوتے ہیں. تو کیا ہم بنی اسرائیل ہی کی طرح گناہ در گناہ نہیں کییے جاتے انھوں نے بھی تو اللہ پاک کی عطا کردہ تمام نعمتوں کو ٹھکرا دیا تھا.؟
بدلتی ہوی نءی دنیا میں ایک بدلاو بہت ہی خوفناک آیا ہے بیوٹی پارلرز میں خواتین کی آمدورفت ضرورت سے زیادہ ہو گءی ہے چلیں یہ اس لحاظ سے تو اچھا ہوا کہ خواتین کے کاروبار میں اضافے کا باعث بنا مگر اس ذہنی گراوٹ نے اس چند گھنٹوں کے ششکے نے تمام لوگوں کو حواس باختہ کر دیا. بیوٹی پارلرز کو آپ بجا طور پہ شعبدہ بازی کہہ سکتے ہیں بنگالی جادوگروں کی دنیا جہاں دولہن یا خواتین یا لڑکیاں مے کپ کے بعد اتنی خوبصورت بنا دی جاتی ہیں کہ ان کے اپنے ہی انھیں پہچاننے سے قاصر ہو جاتے ہیں. اب وہ نوے کی دھای کے زمانے نہیں کہ گھر میں دولہن کو اس کی سکھیوں نے خود ہی الٹا سیدھا تیار کر دیا اب تو جناب یہ باقاعدہ کاروبار ہے آن لاین بکنگ ہوتی ہیں انسٹا پہ پیج بنے ہوے ہیں لوگوں کے فیڈ بیک سے کوئی بھی شخص ان تمام کاروباری مراکز کا کچا چٹھا معلوم کر سکتا ہے. وہ سب ٹھیک ہے لیکن درد اس وقت سوا ہو جاتا ہے جب لاکھوں روپے دے کے تیار ہونے والی دولہن فوٹو شوٹ اور مہمانوں پہ اپنی اداوں اور حسن کی بجلی گرا کے جب صبح دھلے منہ کے ساتھ سب کے سامنے آتی ہے تو سسرالی تو ایک طرف اس کا اپنا شوھر بھی اسے پہچاننے سے منکر ہو جاتا ہے اور اپنی نءی نویلی اور لاڈلی بیوی کی تلاش میں ادھر سے ادھر دیدے گھما گھما کے سب سے پوچھتا پھرتا ہے کہ کدھر یے؟
کدھر ہے؟
اور دولہن صاحبہ دولہا کے سامنے بیٹھ کے شرم سے پانی پانی ہوی جاتی ہیں .
بچپن میں احمد ندیم قاسمی کا ایک افسانہ پڑھا تھا گھر سے گھر تک جہاں لڑکے والے رشتہ دیکھنے سج سجا کے مانگے کے کپڑے پہن کے لڑکی والوں کے ڈراینگ روم میں بیٹھ کے فرنیچر، صوفوں، پردوں، کراکری اور چاے کے لوازمات سے شدید متاثر نظر آ رہے ہوتے ہیں اچانک آنے والی خاتون کو گھر کی اوپری منزل پہ جانا پڑ جاتا ہے تو وہاں گندگی، ٹوٹے ہوے کپ روتے ہوئے ننگ ڈھرنگ بچے دیکھ کر وہ ہنس ہنس کے ہلکان ہو جاتی ہیں اور لڑکی والوں سے کہتی ہیں کہ آپ نے ہمیں پہلے یہ سب کچھ کیوں نہیں دکھایا ہم بھی کپڑے مانگ پہن کے آپ کے گھر آے ہیں اور ایسا ہی لگ رہا ہے کہ ہم اپنے گھر سے اٹھ کر اپنے ہی گھر آ گیے ہیں تو یہ رشتہ پکا ہے.
محسن نقوی نے لوگوں کے اسی بہروپ کو یوں بیان کیا ہے
چہرے بدل بدل کے مجھے مل رہے ہیں لوگ
اتنا برا سلوک میری سادگی کے ساتھ
ایک بہروپ وہ ہے جو ضرورت ہے کاروباری اور پیشہ وارانہ کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیےجیسے وکلاء سیاہ ڈریس اور سیاہ گاون میں ملبوس بڑے سمارٹ دکھائی دیتے ہیں ڈاکٹرز سفید اوورآل میں ملبوس اور نرسز سفید یونیفارم میں بہت پرنور دکھائی دیتی ہیں جج کا اپنا ہی ایک پروقار لباس ہوتا ہے پلمبر، قصائی، مزدور، پایلٹ، اءیر ہوسٹس تمام اپنے کام سے بعد میں اور لباس سے پہلے پہچانے جاتے ہیں دوسرا ماسک وہ ہوتا ہے جو بناوٹ، دکھاوے اور دوسروں کو بیوقوف بنانے کے لیے چڑھایا جاتا ہے اس کی مختلف اقسام ہیں.
شرافت کا ماسک
خواہ مخواہ ہی دوسروں کو متاثر کرنے اور معمولی سے دنیاوی فوائد حاصل کرنے کے لیے چند لوگ شرافت کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں مذہبی ہونے کا ڈرامہ کرتے ہیں ایسا عموماً شادی بیاہ کے معاملات میں دکھنے میں آتا ہے. لین دین. کے معاملات میں بھی یہ نسخہ اکثر استعمال ہوتا ہے مگر سچ یہی ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے.
بناوٹ کا ماسک
خواہ مخواہ کے دنیاوی فایدے حاصل کرنے کے لیے اپنی کم مالی حیثیت کو بڑھا چڑھا کے بتانے کے جتن میں ہلکان ہونا جیسے احمد ندیم قاسمی کے ڈرامے گھر سے گھر تک میں بتایا گیا ہے.
شہرت کا ماسک
معمولی اور کم حیثیت لوگ اپنے من کو راضی کرنے کے لءے اپنی جھوٹی شہرت اور مہارت کے قصے مشہور کر کے اپنی تسلی کرتے رہتے ہیں
نمود و نمایش کا ماسک
یہ ہمارے کلچر میں عام طور پر شادیوں میں دنیا دکھاوے کے لیے چڑھایا جاتا ہے بھلے دولہا دولہن کی حیثیت ہو یا نہ ہو لیموزین، بھگیاں، گھوڑے ،کاریں، مہنگے مہنگے ملبوسات، زیورات بھلے مانگ کر پہنے جایں یا ادھار مانگ کر بھلے سڑک پہ کیوں نہ آ جایں مگر یہ دکھاوے کا ماسک ضرور چڑھاتے ہیں لوگ
جہیز کے مطالبے پورے کرتے کرتے بھی لوگ کءی کءی سالوں تک مقروض ہو جاتے ہیں. ایسی بھی فیملیز دیکھی ہیں جو شادیوں کے فنکشنز میں دوسرے لوگوں پہ اپنی امارت کی دھاک بٹھاتے بٹھاتے اپنی زرعی اراضی تک فروخت کر دیتے ہیں اور پھر نوبت فاقوں تک پہنچ جاتی ہے.
خوبصورتی کے ماسک
بیوٹی پارلرز میں ہربل ماسک، وایٹننگ ماسک، ہایڈرا فیشیل اور ایسے ہی بہت سے ماسک ہیں جو چہرے کی دلکشی اور حسن میں چار چاند لگانے کے لیے ہوتا ہے بات ابٹن سے آیس فیشیل تک پہنچ چکی ہے.
بے بسی اور لاچاری کا ماسک
گداگری کے بڑھتے ہوئے رحجان کو ہوا دینی کی ایک لڑی ہے کہ ہر گلی، بازار اور چوراہے پہ مردوں، عورتوں، لڑکیوں اور بچوں نے اپنے اوپر خواہ مخواہ کی بے بسی اور لاچارگی کا ماسک چڑھا کے شہریوں اور عام عوام کی جیبیں خالی کروانے کا کام تندہی سے شروع کر رکھا ہے اور حکومتی سطح پہ اس بے بسی اور بیچارگی کے ماسک کا قلع قمع کرنے کی کوئی واضح حکمت عملی ابھی تک تشکیل نہیں دی جا سکی اور یہ خواہ مخواہ کی بے بسی کے شاہکار شریف شرفاء کی شدید ذہنی کوفت کا باعث بنتے ہیں.
صبر کا ماسک
ما سک کی تمام اقسام میں سے یہ ماسک کی سب سے اعلیٰ ترین قسم ہے.
الکھ نگری
تیری یادوں کی
الکھ نگری کو
اپنے چہرے سے مٹانے کے لیے
کءی چہروں کے لیپ کر ڈالے
میں نے اپنے اس ایک چہرے پہ
فریحہ ایک تیس سالہ خوبصورت اور خوبصورت عورت تھی اس کا شوہر بیرون ملک مقیم تھا اور فریحہ اور اس کی دو سالہ بیٹی کے لیے باقا عیدگی سے روپے بھیجتا تھا فریحہ کم گو اور صابر تھی ایک سکول میں ٹیچر تھی ساری عمر والدین کے گھر گزار کے بیٹی کو پڑھا لکھا کے رخصت کر نے والی فریحہ نے اپنے چہرے اپنی خواہشات پہ صبر کا ایسا ماسک چڑھایا کہ کسی کو خبر بھی نہ ہونے دی کہ بیرون ملک جاتے ہوئے شوہر اسے طلاق کا تحفہ دے کر متعلقہ کے عہدے پہ بٹھا گیا تھا.
ادبی منافقت کا ماسک
یہ ماسک پہنے مجھے ادیبوں اور شاعروں کا پورا ایک جتھا نظر آیا. ان ماسک زدہ قلمی شاہکاروں نے عجب طرح کی ادبی بے ادبی کی فضا کو پروان چڑھا رکھا ہے خدا ان ادبی ماسک زدہ ہستیوں کو ہدایت دے اور ہمیں ان سب کے شر سے بچائے آمین ثم آمین
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
drpunnamnaureen@gmail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International