rki.news
تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com
جھوٹ کا شمار کبیرہ گناہوں میں ہوتا ہے۔قرآن وحدیث میں بے شمار جگہوں پر جھوٹ سے منع کیا گیا ہے۔کسی بھی معاشرے میں جھوٹ زیادہ بولا جائے تو وہ بدترین معاشرہ کہلاتا ہے۔حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سچے ہونے کی گواہی تو مشرکین مکہ بھی دیتے تھےاور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا لقب “صادق اور امین” مشہور تھا۔ابو لہب جیسےبڑے دشمن نے بھی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو جھوٹا نہیں کہا۔قرآن حکیم میں جھوٹوں پر لعنت کی گئی ہے۔ارشاد باری تعالی ہے”لعنت کریں اللہ کی ان پر جو کہ جھوٹے ہیں”(العمران۔61)یعنی جھوٹا آدمی اللہ کی طرف سے لعنت کا حقدار ہوتا ہے۔جھوٹ بولنے والا وقتی طور پر تو کامیاب بھی حاصل کرلیتاہے،لیکن مستقبل میں جھوٹ کے بدلے میں کافی نقصانات اٹھانا پڑیں گے۔یہ بھی بہت بڑا نقصان ہے کہ اللہ ناراض ہوتےہیں اور آخرت میں سزا ملےگی۔ایک اور جگہ پر قرآن حکیم میں ارشاد ہے”پس جھوٹ افتراکرنے والےتو یہی لوگ ہیں،جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور یہ لوگ ہیں پورے جھوٹے”(النحل۔105)قرآن سچ کا حکم دیتا ہےاور قرآن پورےکا پورا سچ ہی ہے۔جھوٹے لوگ اللہ کی آیتوں پر یقین نہیں رکھتے۔جھوٹ بولنے سے اس لیے بھی منع کیا گیا ہے کہ یہ معاشرے میں بہت سا بگاڑ پیدا کر دیتا ہےاورجھوٹ کی وجہ سے معاشرہ انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔اللہ تعالی نے مومنین کی یہ صفت بھی بیان کی ہے کہ وہ سچ بولنے والوں کےساتھ ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالی ہے”اے اہل ایمان!اللہ سے ڈرتے رہو اور سچ بولنے والوں کے ساتھ رہو”(التوبہ۔119)یعنی جو مومنین ہیں وہ اللہ سے ڈرتے ہیں اور سچ بولنے والوں کے ساتھ ہوتےہیں۔اللہ تعالی نے جھوٹےافراد کو فلاح نہ پانے کی بھی وعید سنائی ہے۔ارشاد باری تعالی ہے”اوروہ جھوٹ مت کہا کرو جو تمہاری زبانیں بیان کرتی رہتی ہیں کہ یہ حلال ہےاور یہ حرام ہے،اس طرح کہ تم اللہ پر جھوٹا بہتان باندھو،بے شک جو اللہ پر جھوٹا بہتان باندھتے ہیں وہ (کبھی)فلاح نہیں پائیں گے”(النحل۔116)
قرآن حکیم کے علاوہ احادیث میں بھی جھوٹ کی سختی سے ممانعت آئی ہے۔جھوٹ بولنے والےکو جہنم کی وعید سنائی گئی ہے اور سچ بولنے والے کو جنت کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔ایک حدیث کے مطابق،حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا”بلا شبہ سچ آدمی کو نیکی کی طرف بلاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہےاور ایک شخص سچ بولتا رہتا ہے،یہاں تک کہ وہ اللہ کےہاں صدیق کا لقب اور مرتبہ حاصل کر لیتا ہے،اوربلاشبہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے اور برائی جہنم کی طرف اور ایک شخص جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے ہاں بہت جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے”(بخاری)اس حدیث کے ذریعے سچے اور جھوٹے کے انجام کےبارے میں وضاحت کی گئی ہے کہ سچ بولنے والا جنت بھی حاصل کرتا ہے اور اللہ تعالی سے صدیق کا لقب اور مرتبہ بھی حاصل کر لیتا ہےاور جھوٹ بولنے والا شخص جہنم حاصل کرتا ہے اور اللہ کے ہاں کذاب بھی لکھ دیا جاتا ہے۔اس سےعلم ہو جاتا ہے کہ سچ کتنا فائدہ مند ہے اور جھوٹ کتنا نقصان دہ۔ایک حدیث کے مطابق مومن دیگر خامیوں کا شکارتوہو سکتا ہے لیکن جھوٹا نہیں ہو سکتا۔حضرت صفوان بن سلیم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا!کیا مومن بزدل ہو سکتا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا”ہاں”پھر سوال کیا گیا!کیا مسلمان بخیل ہو سکتا ہے؟فرمایا”ہاں”پھر عرض کیا گیا کیا مومن جھوٹا ہو سکتا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا “نہیں”۔درج بالا حدیث کے ذریعے واضح ہو جاتا ہےکہ مومن بخیل بھی ہو سکتا ہے اور بزدل بھی ہو سکتا ہے،لیکن جھوٹا نہیں ہو سکتا۔مومن کی یہ بڑی صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ سچا ہوتا ہے۔ایک اورحدیث کے ذریعے وضاحت کی گئی ہے کہ جھوٹ بولنے والے آدمی سے فرشتے بھی دور چلے جاتے ہیں۔حدیث کے مطابق،جب آدمی جھوٹ بولتا ہے تو اس سے جو بدبو آتی ہے اس کی وجہ سے فرشتہ اس سے ایک میل دور چلا جاتا ہے(ترمذی)منافق کی ایک یہ نشانی بھی بتائی گئی ہے کہ وہ جھوٹ بولتا ہے۔حدیث کے مطابق،حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔منافق کی تین نشانیاں ہیں۔جب بولتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے،جب وعدہ کرتا ہےتو وعدہ خلافی کرتا ہے اور جب اسے امین بنایا جاتا ہے تو خیانت کرتا ہے۔(بخاری)یعنی جھوٹ بولنا خیانت میں بھی شمار ہوتا ہے۔حدیث کے مطابق،یہ ایک بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے ایسی بات بیان کرو جس حوالے سے وہ تجھے سچا سمجھتا ہے،حالانکہ تم اس سےجھوٹ بول رہے ہو۔(ابو داؤد)
جھوٹ بولنےسے اس لیے بھی منع کیا گیا ہے کہ اس کےظاہری اور باطنی نقصانات بے شمار ہیں۔ایک جھوٹےآدمی کا وقار معاشرے میں ختم ہو جاتا ہے۔بعض اوقات کسی کا معمولی سا جھوٹ بھی بہت بڑی تباہی لے آتا ہے۔اسلام نے مذاق میں بھی جھوٹ بولنے سے منع کیا ہے۔آج کل جھوٹ بولنے کے لیےمختلف قسم کے دلائل دیے جاتے ہیں۔جھوٹ بولنے والا کبھی فلاح نہیں پاسکتا۔معاشرے کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ جھوٹ سےچھٹکارا پایا جائےاور ہر حال میں سچ بولا جائے۔جھوٹ بولنا ایک منافقت کی نشانی بتائی گئی ہے،اس لیےجھوٹ نہ بولا جائے۔جھوٹے فرد کی معاشرے میں کوئی عزت نہیں رہتی۔معاشرے کی بہتری کے لیےسچ ضروری ہے۔ایک حدیث کے مطابق,ایک آدمی کے لیے جھوٹا ہونے کے لیے کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات آگے بیان کر دے۔(مسلم)ضروری ہے کہ کوئی بھی بات بغیر تصدیق کےآگے بیان نہ کی جائے،ہو سکتا ہے جو بات آپ تک پہنچ رہی ہو وہ جھوٹی ہو۔
Leave a Reply