(ڈاکٹر عامر سہیل(ایبٹ آباد
نگہت سلیم نے مجھے “جہانِ گم گشتہ” کا ایک نسخہ 24 اپریل 2018 میں اپنے دست خط کے ساتھ ارسال فرمایا تھا جو وقفے وقفے سے میرے مطالعے میں رہا۔اس مجموعے میں چھے افسانے اور تین ناولٹ شامل ہیں۔کتاب کے دو بہت عمدہ فلیپ ڈاکٹر شاہین مفتی اور محمد حمید شاہد نے لکھے ہیں۔جب کہ دیباچہ(مانوس اجنبی کہانیاں) خالدہ حسین نے تحریر کیا ہے۔سچی بات تو یہ ہے کہ ان تینوں نے اپنی اپنی آرا میں کتاب کا عطر نکال کر رکھ دیا ہے۔ابھی کچھ دن پہلے جب اس کتاب کا سرورق اپنی فیس بک وال پر لگایا تو ادب، خصوصاً فکشن سے دل چسپی رکھنے والے بیش تر احباب نے نگہت سلیم کے بارے میں جس طرح اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا اس نے دل خوش کر دیا۔ڈاکٹر مبین مرزا نے لکھا:
“نگہت سلیم اس عہد کے ان لکھنے والوں میں ہیں جھنوں نے کم لکھا ہے لیکن جو لکھا وہ ذمہ داری اور شعور کے ساتھ لکھا۔ ان کا ایک مجموعہ بھی ان کی تخلیقی حیثیت کا پورا ثبوت فراہم کرتا ہے۔”
حیرت اس بات پر ہے کہ نگہت سلیم کبھی ادبی منظر نامے پر فعال نہیں رہیں حتی کہ جب وہ اکادمی ادبیات پاکستان کے ساتھ منسلک تھیں اس وقت بھی وہ دوسرے ادیبوں کی تخلیقات کو نمایاں کرنے میں مصروف رہیں اور اپنی ذات کو ہمیشہ ایک طرح سے پردہء اخفا میں رکھا۔اگرچہ کچھ اہم ادبی رسائل میں ان کی تخلیقات نظر سے گزرتی تھیں تاہم ہر ممکن حد تک انھوں نے خود کو ادبی دائروں میں الجھایا نہیں بلکہ خاموشی سے اپنی نگری اور خود نگری میں خوش رہنے کو ترجیح دی۔
مجھے اس مجموعے نے ایک عرصے سے اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے جس کی کئی ایک وجوہات ہیں جن کا ذکر لازمی ہے۔ پہلی لائقِ توجہ خوبی ان افسانوں کی زبان ہے۔مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ افسانہ ایک ایسی صنف ہے جس کی اپنی کوئی مخصوص زبان نہ ہونے کے باوجود کوئی ایسی زبان ضرور ہے جو صرف افسانے کے ساتھ ہی مخصوص ہے اسے کسی اور صنف میں استعمال نہیں کیا جا سکتا اور جب تک اس زبان کو ممکنہ ادبی وسائل کے ساتھ اظہاری پیٹرن میں ڈھالا نہ جائے بات نہیں بنتی۔یعنی افسانہ جب تک افسانے کی نثر میں نہ لکھا جائے بات نہیں بنتی۔افسانہ از اول تا آخر نثر ہی کا کھیل ہے۔جب ہم افسانے کی زبان کو موضوع بناتے ہیں تو درحقیقت ہم افسانہ نگار کی شخصیت،مطالعہ،ماحول، مزاج،نفسیاتی کیفیت،اور اس کے world view کو بھی سمجھنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔”جہان گم گشتہ” میں زبان و بیان کا کلاسیکی قرینہ اصل میں حیات و کائنات کے اسرارورموز اور حقیقت کے ادراک کی اصل کلید ہے۔اسی زبان یا لسانی پیٹرن نے علم و دانش اور فکر و آگہی کی تازہ شمعیں روشن کی ہیں۔اس لسانی ماڈل نے جہاں افسانے کی نامیاتی فضا کو برقرار رکھا وہاں استدلالی طرز فکر کی زیریں لہروں کو بھی ہم بڑے ادبی رکھ رکھاؤ کے ساتھ پیش کیا ہے۔معاصر فکشنی منظر نامے میں زبان کا ایسا رچاؤ دیکھنے کو نہیں ملتا۔۔۔۔۔۔۔(جاری)
Leave a Reply