rki.news
تحریر: ڈاکٹر منور احمد کنڈے۔ ٹیلفورڈ۔ انگلینڈ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جین مت انسانی تاریخ کے ان ابتدائی روحانی دھاروں میں سے ایک ہے جو آج بھی اپنی اصل اقدار اور تعلیمات کے ساتھ دنیا کے مختلف خطوں میں موجود ہے۔ یہ ایک ایسا مذہب ہے جس نے ہزاروں برسوں سے تشدد سے اجتناب، سچائی، قناعت، ضبط نفس اور روحانی ارتقاء کو اپنی بنیاد بنایا ہے۔ جین مت کی جڑیں قدیم ہندوستان میں پیوست ہیں، اور اسے ایک آزاد مذہب کی حیثیت حاصل ہے، اگرچہ اکثر اسے ہندو مت سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ اس کے بانی مہاویر کو مانا جاتا ہے، جو چھٹی صدی قبل مسیح میں گزرے۔ تاہم، جین روایات کے مطابق اس سے پہلے بھی چوبیس تیرتھنکر (رہنمائے راہِ نجات) آچکے تھے، جن میں رِشبھ دیو پہلے تھے اور مہاویر آخری۔
جین مت کا تصور خدا کے بارے میں مختلف ہے۔ یہ مذہب کسی خالق خدا پر ایمان نہیں رکھتا، بلکہ ہر روح کو از خود مکمل اور نجات کے لائق سمجھتا ہے۔ ان کے نزدیک ہر جیو (روح) میں لامحدود علم، طاقت، اور سکون کی صلاحیت موجود ہے، اور مقصد یہی ہے کہ وہ اپنے اندر موجود آلائشوں، کرموں اور جسمانی وابستگیوں سے پاک ہو کر “موکش” یعنی نجات حاصل کرے۔ اس نجات کو حاصل کرنے والا جیو “سِدھ” کہلاتا ہے، جو نہ مرتا ہے نہ پیدا ہوتا ہے، بلکہ ہمیشگی میں قائم رہتا ہے۔
اخلاقی اعتبار سے جین مت کا نظام بے حد سخت مگر بے مثال ہے۔ اس کے بنیادی اصول پانچ ہیں: عدم تشدد (اہنسا)، سچ بولنا (ستیہ)، چوری نہ کرنا (استیہ)، جنسی پرہیز یا پاک دامنی (برہمچریہ) اور غیرملکیت (اپریگراہ)۔ یہ اصول نہ صرف مذہبی افراد بلکہ عام ماننے والوں کے لیے بھی لازم ہیں، اگرچہ ان کے نفاذ کی شدت مختلف ہو سکتی ہے۔ اہنسا کو جین مت میں مرکزی مقام حاصل ہے، اور اس کا مفہوم صرف انسانوں تک محدود نہیں، بلکہ کیڑوں، پودوں، پانی اور ہوا تک کو نقصان نہ پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جین بھکشو چلتے وقت جھاڑو سے زمین صاف کرتے ہیں تاکہ کسی جاندار کو نقصان نہ پہنچے۔
رہن سہن میں جین افراد سادگی، صفائی اور پرہیزگاری کو اہمیت دیتے ہیں۔ اکثر جینی سبزی خور ہوتے ہیں، اور کئی تو ان سبزیوں سے بھی پرہیز کرتے ہیں جو زمین کے اندر اگتی ہیں، جیسے آلو، پیاز یا لہسن، کیونکہ ان میں زیادہ جانداروں کے پائے جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔ لباس میں سفید یا گیروے کپڑے، سادگی، اور زیورات سے اجتناب جینی رہن سہن کا خاصہ ہے۔ ان کے گھروں میں بھی سادگی نمایاں ہوتی ہے، اور عبادت کے لیے مخصوص جگہیں بنائی جاتی ہیں۔
تجارت کے میدان میں جینی برادری نے ہمیشہ دیانت، صاف گوئی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جین تاجروں نے برصغیر، وسطی ایشیا، اور مشرقی افریقہ تک تجارت کے جال بچھائے۔ وہ تجارت کو بھی ایک مقدس فریضہ سمجھتے ہیں، جس میں جھوٹ، دھوکہ اور زیادتی کی گنجائش نہیں۔ ان کی مالی شرافت نے انہیں عالمی سطح پر قابلِ اعتبار اور کامیاب تاجر بنایا ہے۔ آج بھی ہندوستان کے کئی بڑے صنعت کار جین خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
تعلیم اور تربیت کو جین مت میں بلند مقام حاصل ہے۔ ان کے ہاں بچوں کو ابتدائی عمر سے ہی نظم و ضبط، مطالعہ، اور اخلاقی تربیت کا عادی بنایا جاتا ہے۔ پرانے زمانے میں جین آشرم (مدرسے) علم و عرفان کے مراکز تھے، جہاں صرف مذہبی تعلیم ہی نہیں، ریاضی، فلسفہ، منطق، اور طب کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ جینی رشیوں نے قدیم ہندوستانی ادب، طب، اور منطق پر گراں قدر کتابیں تحریر کیں جو آج بھی علمی دنیا میں اہم مانی جاتی ہیں۔
حسن سلوک جین مت کی تعلیمات کا بنیادی ستون ہے۔ ان کے ہاں ہر انسان، ہر ذی روح، حتیٰ کہ ہر ذرے کے ساتھ محبت، احترام اور نرمی سے پیش آنا فرض ہے۔ یہی تعلیم انہیں ایک پُرامن، خاموش، اور روحانیت سے لبریز کمیونٹی بناتی ہے۔ جین مت کے پیروکار ہمیشہ معاشرتی ہم آہنگی، بین المذاہب رواداری، اور صلح پسندی کے داعی رہے ہیں۔
پوجا کے طریقے عبادت گاہوں میں انجام دیے جاتے ہیں، جنہیں “دیر” یا “جین مندر” کہا جاتا ہے۔ ان عبادت گاہوں میں تیرتھنکروں کی مورتیوں کو سادہ پھولوں، چاول، اور خوشبو سے سجدہ کیا جاتا ہے۔ اگرچہ جینی خدا کو نہیں مانتے، مگر ان کی پوجا نجات یافتہ روحوں کے احترام کے طور پر کی جاتی ہے۔ عبادت کا مقصد ان کی صفات کو اپنانا اور اپنے اندر موجود آلودگیوں کو دھونا ہوتا ہے۔ کچھ فرقے مورتی پوجا نہیں کرتے، بلکہ مراقبہ اور مطالعہ کو عبادت کا درجہ دیتے ہیں۔ اہم جین مندروں میں شری شملا جی، رنک پور، شری پالیتانا، شری شترو نجی، اور شری گومٹیشور شامل ہیں۔ گومٹیشور کی دیو قامت مورتی دنیا کے سب سے بڑے مجسموں میں شمار ہوتی ہے۔
آج جین مت کے ماننے والوں کی تعداد تقریباً چالیس سے پچاس لاکھ کے درمیان ہے، جن میں اکثریت بھارت میں مقیم ہے۔ تاہم، ان کی چھوٹی چھوٹی بستیاں امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، کینیا، جنوبی افریقہ، اور آسٹریلیا میں بھی موجود ہیں۔ ان کی عالمی تنظیمیں جین ثقافت، تعلیم، اور خدمتِ انسانیت کو فروغ دینے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ جین مندروں کی موجودگی اب مغربی دنیا میں بھی دیکھی جا سکتی ہے، جو ان کے مذہب کی ہمہ گیری اور روحانی کشش کا ثبوت ہے۔
جینی سلام اور دعائیں روایتی الفاظ میں دی جاتی ہیں۔ ان کی مخصوص مذہبی گریٹنگ “جئے جنندر” ہے، جو دو الفاظ کا مجموعہ ہے: “جئے” یعنی فتح ہو، اور “جنندر” یعنی ان روحوں کو جو جین مت کے مطابق نجات پا چکی ہیں۔ اس سلام میں کسی خالق خدا کا ذکر نہیں بلکہ نجات یافتہ روحوں کی عظمت اور ان کے راستے پر چلنے کی خواہش کا اظہار ہے۔ یہ greeting روزمرہ کے استعمال میں بھی آتی ہے اور عبادت گاہوں میں بھی۔
مسلم معاشرہ میں جینی افراد کو غیر اہلِ کتاب تصور کیا جائے گا، کیونکہ وہ نہ خالقِ کائنات پر ایمان رکھتے ہیں، نہ کسی نبی یا کتاب کو مانتے ہیں، اور نہ آخرت کے اسلامی تصور کو تسلیم کرتے ہیں۔ ان کا نظام عقیدہ نہ تو توحید پر مبنی ہے اور نہ ہی کسی الوہی ہدایت پر۔ اس لیے فقہی لحاظ سے ان کا درجہ مشرکین کے قریب شمار کیا جاتا ہے، تاہم ان سے حسنِ سلوک، عدل، اور گفتگو کی دعوتی روش برقرار رکھنا اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔
اگر ان کو اسلام کی تبلیغ کرنی ہو تو چند نکات خاص طور پر سمجھانے کی ضرورت ہے:
1. توحید کا واضح تصور: جین مت میں کوئی خالق یا رب نہیں، اس لیے سب سے پہلا تعارف اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی صفات، اور اس کی قدرت سے کروانا ہوگا، جو ہر شے کا خالق، مالک، رازق اور پروردگار ہے۔
2. نبوت اور رسالت: جینی روحانیت میں کوئی خدائی پیغام نہیں آتا، اس لیے پیغمبر محمد ﷺ کا تعارف، ان کی سیرت، اور وحی کا تصور نہایت نرمی سے پیش کرنا ہوگا، تاکہ انہیں معلوم ہو کہ انسانیت کی راہنمائی اللہ کی طرف سے آتی ہے۔
3. آخرت اور حساب کا عقیدہ: جینی تصورِ نجات ایک غیرشخصی عمل ہے، جبکہ اسلام آخرت، جزا و سزا، اور قیامت پر مکمل ایمان رکھتا ہے۔ اس تصور کو دلیل اور حکمت کے ساتھ سمجھانا ہوگا۔
4. انسان اور خالق کا تعلق: اسلام روح کو صرف صاف کرنے کا نام نہیں، بلکہ بندے اور رب کے تعلق کو بھی شامل کرتا ہے۔ دعا، عبادت، خشیت اور محبت کے ساتھ جین افراد کو اس روحانی ربط سے روشناس کروانا ہوگا۔
5. اسلام کا عالمگیر پیغام: اسلام صرف ایک قوم یا خطے کے لیے نہیں بلکہ کل انسانیت کے لیے ہدایت ہے۔ اس میں مساوات، عدل، رحم، اور امن جیسے عناصر کو اجاگر کرنا دعوتی لحاظ سے مفید ہو سکتا ہے۔
جین افراد عموماً تعلیم یافتہ، شائستہ اور مذہبی معاملات میں سنجیدہ ہوتے ہیں۔ ان سے گفت و شنید کے دوران حکمت، صبر، اور علمی استدلال کے ساتھ بات کرنی چاہیے۔ ان کے ساتھ مشترکہ اقدار جیسے سچائی، امن، انصاف، اور انسانی فلاح کو بنیاد بنا کر مکالمہ آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ اگرچہ ان کی تعلیمات میں کئی باتیں اسلام سے مختلف ہیں، لیکن نرمی، علم، اور کردار سے ان کے دلوں تک پہنچا جا سکتا ہے۔
حوالہ جات:
1. The Jains by Paul Dundas (Cambridge University Press)
2. Jainism: An Introduction by Jeffery D. Long
3. Encyclopedia of Religion (Macmillan Reference)
4. القرآن، سورۃ البقرہ، آیت 256
5. صحیح مسلم، کتاب الإیمان
6. ابن کثیر: تفسیر القرآن العظیم، جلد 1
7. Jainism and Ethical Living — Journal of South Asian Studies
Leave a Reply