تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
پیارے قارٸین!ایبٹ آباد کی خوش کن فضاٶں میں کس قدر خوبصورتی ہے۔جہاں چناروں کے درختوں کی جلوہ نماٸی ہے تو کوہساروں کا تسلسل بھی ہے۔ فن تاریخ اوردیار ادب سے محبت کرنے والوں کی کوٸی کمی نہیں۔ایک خوبصورت نام ”حافظ محمد عثمان خان“ ہے جو کسی بھی تعارف کے محتاج نہیں۔معلم تو اپنا تعارف آپ ہوتا ہے۔علم کی شمع سے پیار اور معماران قوم کی تعلیم و تربیت اور دیار ادب سے محبت ہی تو موصوف کی الگ شناخت اور پہچان ہے۔محبت کے تقاضے اس قدر دل میں محبتوں کی باد نسیم چلتی ہے۔تو کسی نہ کسی شخصیت اور ہستی کا تذکرہ شروع ہو جاتا ہے۔محترم حافظ محمد عثمان خان تو اپنی ذات اور ہستی میں ایک انجمن ہیں۔آپ کی زندگی کی سرگزشت کس قدر خوبصورت ہے اس کا اندازہ میری مختصر سی تحریر سے ضرور ہو گا۔موصوف یکم نومبر 1970میں دھمتوڑ ایبٹ آباد میں ممتاز سماجی شخصیت حاجی محمد ایوب خان کے ہاں پیدا ہوۓ۔بہترین گھریلو تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ مقامی گورنمنٹ پرائمری سکول دھمتوڑ ایبٹ آباد سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔اور 1987میں وہ مبارک گھڑی آئی موصوف نے میٹرک کا امتحان بھی مقامی ہائی سکول دھمتوڑ سے پاس کر لیا۔آگے بڑھنے اور محنت سے تعلیم حاصل کرنے کا جذبہ دل میں موجود ہونے کی وجہ سے اللہ تعالٰی کی عظیم کتاب قرآن مجید سے محبت ہونے کی بناء پر حفظ بھی کر لیا۔1989میں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج نمبر1 ایبٹ آباد سے ایف۔اے کا امتحان پاس کیا اور ایک بار پھر مدرسہ انوار الاسلام ایبٹ آباد میں داخلہ لیا۔علم کی پیاس بجھانے اور دامن دل علم کی روشنی سے منور کرنے کے لیے کوشاں رہےاورعلامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے بی۔اے کا سالانہ امتحان پاس کیا۔1996 میں پی۔ٹی۔سی اور 1998میں سی۔ٹی کا کورس مکمل کرنے کے داخلہ لیا اور 2000کے سال میں سی۔ٹی کورس اور تجوید کورس اتحاد المدارس سے پاس کیا۔2002میں ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ سے ایم۔اےاور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے بی۔ایڈ میں داخلہ لیا۔2008 میں ایم۔ایڈ کی ڈگری علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے حاصل کر لی۔تعلیمی عمل سے رغبت اس قدر کہ ساتھ ساتھ رہبر پبلک سکول اور بنات تعلیم القرآن سکول ایبٹ آباد میں تعلیم کے فروغ کے لیے خدمات سرانجام دیں۔30 جون 1997میں یک خوبصورت تقررنامہ سرکاری ملازمت کا ملا۔موصوف اب تک گورنمنٹ GHSSبگنوتر ایبٹ آباد میں تعلیمی خدمات سرانجام دینے میں مصروف عمل ہیں۔تحریروتقریر کے میدان میں بھی خدمات سرانجام دینے کے لیے کوشاں ہیں۔تاریخ سے اس قدر ذوق کہ 2010میں دھمتوڑ تاریخ کے آئینہ میں کتاب لکھ دی۔اب 2025میں کتاب ”جنت کا حق دار کون“لکھ کر ایک اور کارنامہ سرانجام دیا ہے۔جو موصوف کی بہترین قلمی سعی بلیغ کے مترادف ہے۔موصوف ادبی تنظیم بزم مصنفین ایبٹ آباد میں اہم عہدیدار بھی ہیں۔قلمی سفر جاری ہے۔لیلة القدر کیا ہے؟اور پیر کامل غیر مطبوعہ تصانیف ہیں۔موصوف مقامی طور پر امامت و خطابت کے فراٸض بھی سرانجام دیتے ہیں۔نیز علم و ادب کے ساتھ بھی ذوق رکھتے ہیں۔اس ضمن میں یہ بات کہی جا سکتی ہے بقول شاعر:-
منزل سےآگے بڑھ کر منزل تلاش کر
مل جاۓ تجھ کو دریا تو سمندر تلاش کر
کے مصداق علم کی دنیا سے رغبت ہے۔اور یہ حقیقت بھی مسلمہ ہے۔بقول شاعر :-
فطرت کے مقاصد کی کرتا نگہبانی
بندہ صحراٸی ہو یا مرد کوہستانی
کی عملی تصویر ”حافظ محمد عثمان خان“ایک مقصد عظیم کی تکمیل کے لیے کوشاں ہیں۔موصوف چونکہ پٹھانوں کی ذیلی شاخ ادین زئی سے تعلق رکھتے ہیں۔تاریخ سے واقفیت اور ذوق کا اظہار تو موصوف کے شجرہ نسب سے ہوتا ہے جو موصوف نے بطور محبت پیش کیا۔(حافظ محمد عثمان خان بن حاجی ایوب خان بن ستار خان بن امیر خان بن موسم خان بن اعظم خان بن شمشیر خان بن گل شیر خان بن ہیبت خان بن عیسٰی خان بن ادین زئی)موصوف کی زندگی تعلیم اور تعلم کے آئینہ میں خوبصورتی کی علامت ہے۔انسانیت کی خدمت کے جذبہ سے سرشار مرد مجاہد خدا کرے سرگرم عمل رہے۔اور یہ جذبہ زندگی میں قائم رہے۔بقول شاعر:-
”علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب“
Leave a Reply