rki.news
تحریر احسن انصاری
اسلام ایک ایسا دین ہے جو انسان کی زندگی کے تمام پہلوؤں کی مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اس کا ہر رکن انسان کی روح، جسم، عقل اور معاشرتی زندگی پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ دینِ اسلام کے پانچ بنیادی ستون ہیں: کلمۂ توحید، نماز، روزہ، زکٰوۃ اور حج۔ انہی میں سے پانچواں اور اہم رکن حج ہے، جو ہر صاحبِ استطاعت مسلمان مرد و عورت پر زندگی میں ایک بار فرض ہے۔
حج کی فرضیت قرآنِ کریم اور سنتِ نبوی ﷺ سے واضح طور پر ثابت ہے۔ سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 97 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: “اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں، اور جو انکار کرے تو بے شک اللہ تمام جہانوں سے بے نیاز ہے۔” اس آیت میں حج کی فرضیت کو واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے اور ساتھ ہی اس شخص کے انجام کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے جو اس فریضے سے انکار کرے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی متعدد احادیث میں حج کی اہمیت اور فرضیت کو بیان فرمایا ہے۔ ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا: “اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکٰوۃ دینا، رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا۔” (بخاری)
حج ہر مسلمان پر اس وقت فرض ہوتا ہے جب وہ “صاحب استطاعت” ہو۔ استطاعت کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کے پاس حج کے اخراجات، واپسی تک کے لیے گھر والوں کی کفالت، اور سفر کے لیے جسمانی صحت اور سفر کی سلامتی کا امکان موجود ہو۔ خواتین کے لیے اس میں ایک اور شرط شامل ہے کہ اُن کے ساتھ کوئی محرم مرد موجود ہو۔
حج ایک ایسی عبادت ہے جو نہ صرف روحانیت کو جِلا بخشتی ہے بلکہ مساوات، اتحاد، صبر، قربانی اور بندگی کا عملی مظاہرہ بھی کرواتی ہے۔ جب ایک حاجی احرام باندھتا ہے تو وہ دنیاوی زیب و زینت، رتبے، لباس اور ظاہری حیثیت سے آزاد ہو کر اللہ کے در پر آ جاتا ہے۔ وہ ایک عام انسان کی حیثیت سے، سب کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے، جو اسلام کے مساوات کے اصول کو عملی صورت میں سامنے لاتا ہے۔
حج کا مقصد صرف کچھ اعمال کا مجموعہ نہیں بلکہ روحانی تربیت، نفس کی اصلاح، گناہوں کی معافی، اور اللہ تعالیٰ سے قرب کا ذریعہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جو شخص حج کرے اور اس میں فحش گوئی یا گناہ نہ کرے، وہ ایسے لوٹتا ہے جیسے اس کی ماں نے اُسے ابھی پیدا کیا ہو۔” (بخاری)
حج کے دوران کی جانے والی عبادات کو “ارکانِ حج” کہا جاتا ہے، اور ان کی تعداد چار (4) ہے، جن کا ادا کرنا ہر حاجی کے لیے فرض اور لازم ہے۔ پہلا رکن احرام باندھنا ہے۔ احرام حج کی نیت کے ساتھ مخصوص لباس پہننے کو کہتے ہیں۔ مرد سفید دو چادریں اوڑھتے ہیں جبکہ خواتین سادہ لباس میں ہوتی ہیں۔ احرام باندھتے ہی حاجی پر کچھ چیزیں حرام ہو جاتی ہیں، جیسے خوشبو لگانا، شکار کرنا، یا جھگڑا کرنا۔ دوسرا رکن وقوف عرفہ ہے، 9 ذوالحجہ کو زوالِ آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک میدان عرفات میں ٹھہرنا حج کا سب سے اہم رکن آعظم ہے۔ اگر کوئی شخص عرفہ میں حاضر نہیں ہوتا تو اس کا حج ہی نہیں ہوتا، کیونکہ حدیث میں آیا ہے “الحج عرفہ” یعنی “حج عرفہ ہے۔” تیسرا رکن طوافِ زیارت ہے یہ طواف 10 ذوالحجہ سے لے کر حج کے اختتام تک کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے، اور یہ خانہ کعبہ کے گرد سات چکر لگانے پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ فرض ہے اور اس کے بغیر حج مکمل نہیں ہوتا۔ چوتھا رکن سعی بین صفا و مروہ ہے۔ صفا اور مروہ کے درمیان سات چکر لگانے کو سعی کہتے ہیں۔ یہ سعی حضرت ہاجرہ علیہا السلام کی سنت کی یادگار ہے، جب وہ اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لیے پانی کی تلاش میں دوڑتی رہیں۔ یہ چار ارکان حج کی بنیاد ہیں۔ ان کے علاوہ کئی واجبات اور سنن بھی ہیں جیسے رمی جمرات (شیطان کو کنکریاں مارنا)، قربانی کرنا، مزدلفہ میں قیام، حلق یا قصر (بال منڈوانا یا کٹوانا) اور طوافِ وداع وغیرہ۔ واجبات کی ادائیگی نہ کرنے پر دم (قربانی) لازم آتی ہے، جبکہ ارکان کا ترک کرنا حج کو باطل کر دیتا ہے۔
حج کا سب سے نمایاں پہلو وہ عالمی اجتماع ہے جس میں دنیا بھر سے مسلمان بغیر کسی رنگ و نسل، زبان یا فرقے کی تفریق کے ایک ہی مقام پر، ایک ہی لباس میں، ایک ہی مقصد کے تحت جمع ہوتے ہیں۔ یہ منظر اسلامی وحدت، بھائی چارے اور مساوات کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ یہاں ہر شخص اللہ کے حضور عاجزی سے جھکا ہوتا ہے، اور سب کی زبان پر ایک ہی صدا ہوتی ہے: “لبیک اللہم لبیک”۔
اسلام نے خواتین کو بھی حج کی اجازت دی ہے، مگر ان کے لیے محرم کی موجودگی شرط قرار دی گئی ہے۔ شریعت کی یہ ہدایت خواتین کی عزت و ناموس کے تحفظ کے لیے رکھی گئی ہے۔ حج کے دوران خواتین بھی تمام عبادات میں شریک ہوتی ہیں اور برابر کا روحانی فائدہ حاصل کرتی ہیں۔
حج نہ صرف فرد کی اصلاح کرتا ہے بلکہ پورے معاشرے کو روحانی طاقت فراہم کرتا ہے۔ حج کے بعد ایک حاجی کی زندگی میں تبدیلی آنا چاہیے۔ وہ گناہوں سے توبہ کرے، جھوٹ، دھوکہ، غیبت، ظلم اور بدعملی سے بچنے کا عزم کرے۔ یہی حج کا اصل مقصد ہے۔
حج ایک عظیم عبادت ہے جو صرف چند دنوں کا سفر نہیں بلکہ زندگی بھر کے لیے اللہ سے ایک نیا تعلق قائم کرنے کا ذریعہ ہے۔ ہر صاحب استطاعت مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس فریضے کی ادائیگی میں دیر نہ کرے، کیونکہ اللہ کا بلاوا نعمتِ عظمیٰ ہے۔ جو ایک بار اس کی بارگاہ میں پہنچ جائے، وہ خالی نہیں لوٹتا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حج کی سعادت نصیب فرمائے، اور جنہوں نے یہ فریضہ ادا کر لیا ہے ان کے حج کو مقبول اور مبرور بنائے۔ آمین۔
Leave a Reply