rki.news
تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
یہ بات اچھی طرح معلوم ہونی چاہیے کہ سماج اور معاشرے کی خوبصورتی ان اوصاف حمیدہ سے ہوتی ہے جن کا انسانی زندگی پر بہت گہرا اثر ہوتا ہے ۔اور زندگی کی رونق بھی ان سے ہوتی ہے۔ان اوصاف کے بغیر تو زندگی ویران سی محسوس ہوتی ہے اور اطمینان و چین کہیں گم ہو کر رہ جاتا ہے اور ہر طرف ایک وحشت سی محسوس ہوتی ہے۔یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے جس ملک اور سماج کے لوگ دیانتدار٬حقوق العباد کے پاس دار اور خدمت خلق کو اپنا لیتے ہیں ان کی زندگی حسن معاشرت اور حسن معاملات کی عملی تصویر ہوتی ہے۔دیانتداری تو ایسا وصف ہے جس سے اخوت٬ایثار اور ہمدردی کا بے پایاں جذبہ پیدا ہوتا ہے۔یہ بات اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ دیانتدار لوگ سماج میں منفرد مقام رکھتے ہیں اور معاشرے میں خوشگوار تعلقات کے لیے معاون ثابت ہوتے ہیں۔ان میں یہ خوبی بھی بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے کہ کاروبار اور تجارت میں بھی دیانت داری مدنظر رکھتے ہیں جو بہترین خوبی کمال ہے۔جس ملک٬میں لوگ دیانت داری اور خدمت خلق کو مدنظر رکھتے ہیں اور حقوق العباد مدنظر رکھتے ہیں وہاں زندگی مسکراتی ہے اور نفرت انگیز رویے دم توڑتے ہیں۔کینہ٬بغض اور حسد جیسے مذموم افعال کا خاتمہ ہوتا ہے۔خدمت خلق تو ایسا خوبصورت عمل ہے جس سے حسن معاشرت اور حسن معاملات میں خوبصورتی پیدا ہوتی ہے۔عہد حاضر میں پاۓ جانے والے مساٸل کا بہترین حل دیانتداری سے کام کرنے اور حقوق العباد کی پاسداری کرنے سے ہے۔آج سماج میں بےچینی اور اضطراب کیوں؟یہ ایسا سلگتا سوال ہے جس کے جواب پر غور کرنا انتہاٸی ضروری ہے۔اصل بات تو یہی ہے زندگی رب کریم کی طرف سے یک مقدس امانت ہے اور امانت دار اور دیانتدار لوگ کبھی امانت میں خیانت کے مرتکب نہیں ہوتے بلکہ رضاۓ الٰہی کو مدنظر رکھ کر زندہ رہتے ہیں۔جب انسان محض خواہشات نفسانی کی خاطر زندہ رہے تو اس کو بے چینی اور اضطراب کے سوا کچھ نہیں ملتا۔انسان کی زندگی تو سماج میں ایسی ہونی چاہیے کہ حسن معاشرت اور حسن معاملات میں ایک جھلک نمایاں نظر آۓ۔فتنوں کا استیصال٬بدعات و خرافات کا خاتمہ حسن معاشرت کا باعث بنتا ہے۔اعتدال پسندی اور میانہ روی سے سماج اور معاشرہ میں سدھار پیدا ہوتا ہے۔تاریخ کائنات میں محبت کی ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جیسی سرور کائنات٬فخر موجودات حضرت محمدؐ نے امانت اور دیانت کی روشن مثال قائم فرمائی۔حسن معاشرت سے زندگی کا روپ تبدیل فرمانے میں آپؐ کا کردار قابل تعریف ہے۔اس لیے سیرت نبویؐ کی روشنی میں زندگی بسر کرنے میں کامیابی ہے۔اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سماجی برائیوں کا خاتمہ تو وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔اسلامی روایات کو زندہ رکھتے اپنے بھائی کی تجہیز و تکفین٬صدقات اور زکوٰة کی ادائیگی٬اسراف کا خاتمہ اور سخاوت ٬غرور اور تکبر کی حوصلہ شکنی سے نہ صرف حسن معاشرت کا حسن دوبالا ہوتا ہے بلکہ حسن معاملات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔سماجی امتازات سے تو سماج اور معاشرہ تقسیم ہو کر رہ جاتے ہیں۔نفرت کی دیواریں مضبوط ہونے سے انسانیت کے وقار پر کاری ضرب لگتی ہے جو خوشحال زندگی کے لیے نیک شگون نہیں۔وقت کا تقاضا ہے کہ محبت سے زندہ رہنا سیکھیں اور بچوں کو بھی محبت کے آداب سکھاۓ جائیں۔زندگی تو رب کائنات کی طرف سے مقدس امانت ہے۔اس لیے آداب زندگی کے اصولوں اور ضوابط کو مدنظر رکھنا چاہیے۔اسلامی طرز حیات کی خوبیاں شمار نہیں ہوتیں۔اصولوں کی پاسداری اور ضوابط کی پیروی سے حسن معاشرت کی دلکشی اور حسن معاملات کی خوبصورتی میں اضافہ ہوتا ہے۔اسلامی طرز معاشرت بے شمار خوبیوں کا نمونہ ہوتی ہے۔افراد کے مابین اچھے تعلقات اور بہترین انسانی رویوں سے زندگی کا روپ خوشگوار ہوتا ہے۔ایک دوسرے کا احترام کرنے اور انسانی حقوق کی پاسداری سے زندگی خوبصورت ہوتی ہے۔قوم کے بچوں اور بڑوں کے ساتھ حسن سلوک کے بہت گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔اس لیے عمل کی ضرورت ہوتی ہے۔اپنی نئی نسل کو حسن معاشرت اور حسن معاملات کی اہمیت سے آگاہ کرنا چاہیے۔
Leave a Reply