rki.news
(تحریر احسن انصاری)
حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ برصغیر کے ان عظیم صوفی بزرگوں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے محبت، اخوت اور انسانیت کی شمع روشن کی۔ آپ 1238 عیسوی میں بدایوں، اتر پردیش (ہند) میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصل نام محمد تھا۔ محض پانچ برس کی عمر میں آپ کے والد کا سایہ آپ کے سر سے اٹھ گیا۔ آپ کی والدہ، بی بی زلیخا نے انتہائی محنت اور محبت سے آپ کی پرورش کی اور آپ کے دل میں دین کی محبت اور خدمتِ خلق کا جذبہ راسخ کیا۔
بچپن ہی سے آپ علم دین حاصل کرنے کے خواہشمند تھے۔ قرآن، حدیث، فقہ اور عربی زبان کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد، اعلیٰ دینی تعلیم کے لیے دہلی کا سفر کیا، جو اس وقت علم و حکمت کا مرکز تھا۔
دہلی میں قیام کے دوران آپ کی ملاقات حضرت فریدالدین گنج شکرؒ (بابا فرید) سے ہوئی، جنہیں دیکھ کر آپ کا دل کھچتا چلا گیا۔ حضرت نظام الدینؒ نے بابا فریدؒ کے دستِ حق پر بیعت کی اور ان کی صحبت میں رہ کر روحانی منازل طے کیں۔ بابا فریدؒ نے نہ صرف آپ کی باطنی تربیت کی بلکہ آپ کو اپنا خلیفہ بھی مقرر فرمایا۔
آپ کی تعلیمات کا مرکز عشقِ حقیقی، رواداری، اور مخلوقِ خدا کی بے لوث خدمت تھا۔ آپ نے سکھایا کہ اللہ سے سچی محبت تبھی ممکن ہے جب مخلوق سے بے پناہ محبت کی جائے۔
حضرت نظام الدین اولیاءؒ نے دہلی میں اپنی خانقاہ قائم کی، جو دیکھتے ہی دیکھتے روحانی سکون کا ایک عظیم مرکز بن گئی۔ ہر مذہب، قوم اور طبقے کے لوگ بلا تفریق یہاں آتے اور فیض یاب ہوتے۔ آپ کے دسترخوان سے روزانہ ہزاروں افراد سیر ہو کر کھاتے، مگر کھانے میں کبھی کمی واقع نہ ہوتی۔ یہ اللہ پر آپ کے غیر متزلزل ایمان اور کامل توکل کی زندہ دلیل تھا۔
اگرچہ وقت کے بادشاہ اور سلاطین آپ کی عظمت کے معترف تھے اور درباروں میں عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے، مگر حضرت نظام الدین اولیاءؒ نے ہمیشہ دنیاوی طاقت سے فاصلہ رکھا۔ آپ کی روحانی آزادی کا یہ عالم تھا کہ سلطان غیاث الدین تغلق جیسے حکمرانوں سے بھی اختلاف رائے ہو جاتا، مگر آپ کبھی اپنے راستے سے نہ ہٹے۔
آپ کا ایک مشہور قول ہے:
“ہمارا مشرب محبت ہے، جنگ و جدل سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔”
یہ الفاظ آج بھی اخوت اور رواداری کے علمبردار ہیں۔
اس دور میں فارسی درباری زبان تھی، مگر حضرت نظام الدین اولیاءؒ نے عوام کی زبان میں بھی گفتگو فرمائی تاکہ ان کا پیغام عام لوگوں تک بہ آسانی پہنچے۔
آپ کی گفتگو محبت، نرمی اور شفقت سے بھرپور ہوتی، جو سننے والوں کے دلوں کو چھو لیتی۔ آپ نے انسان دوستی، عاجزی اور خدمتِ خلق کو عبادت کا اعلیٰ ترین درجہ قرار دیا۔
حضرت نظام الدین اولیاءؒ کی روحانی مجلسوں میں کئی نابغہ روزگار شخصیات نے تربیت پائی، جن میں سب سے نمایاں نام حضرت امیر خسروؒ کا ہے۔ امیر خسروؒ آپ کے مرید خاص تھے اور انہیں برصغیر میں قوالی کا بانی کہا جاتا ہے۔
امیر خسروؒ نے اپنی شاعری، موسیقی اور تخلیقات کے ذریعے اپنے مرشد کی محبت کو زندہ جاوید کر دیا۔ ان کے اشعار اور قوالیاں آج بھی حضرت نظام الدین اولیاءؒ کی تعلیمات کی خوشبو بکھیرتے ہیں۔
حضرت نظام الدین اولیاءؒ دنیاوی طاقتوں سے بے نیاز تھے۔ جب دہلی کے سلطان نے آپ کو دربار میں آنے کی دعوت دی تو آپ نے جواب دیا:
“بادشاہ ہم سے راضی ہو یا ناراض، ہمیں کیا خوف؟ ہمارا بادشاہ تو صرف اللہ ہے۔”
یہ الفاظ نہ صرف آپ کی دلیری اور روحانی خودداری کا مظہر ہیں بلکہ اللہ پر کامل یقین کی بھی روشن مثال ہیں۔
1325 عیسوی میں حضرت نظام الدین اولیاءؒ نے وصال فرمایا۔ وصال کے وقت آپ کی زبان پر یہ دعا تھی:
“الہی! مجھے اپنے دوستوں میں شامل فرما لے۔”
آپ کی رحلت پر دہلی اور اطراف کا ہر دل سوگوار تھا۔
آپ کا مزار دہلی میں واقع ہے، جو “دربار حضرت نظام الدین” کے نام سے مشہور ہے۔ آج بھی یہاں ہر مذہب اور قوم کے لوگ دعا مانگنے، روحانی سکون حاصل کرنے اور اپنی مرادیں لے کر آتے ہیں۔ ہر جمعرات کو مزار پر قوالی کی محافل منعقد ہوتی ہیں، جہاں محبت اور عقیدت کی خوشبو بکھرتی ہے۔
حضرت نظام الدین اولیاءؒ کو “محبوبِ الٰہی” کا لقب عطا ہوا، جو ان کی بے مثال روحانی عظمت اور اللہ سے والہانہ تعلق کا اظہار ہے۔
ان کی مشہور قوالیاں جیسے “چھاپ تلک سب چھین لی” اور “خواجہ میرے خواجہ” آج بھی لوگوں کے دلوں کو گرما دیتی ہیں اور روحانی دنیا میں ان کا نور بکھیرتی ہیں۔
آج کے اس دورِ تفرقہ و نفرت میں حضرت نظام الدین اولیاءؒ کی زندگی اور تعلیمات ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ اصل انسانیت محبت، خدمت، اخوت اور عاجزی میں ہے۔
ان کا پیغام ابدی ہے — کہ دلوں کو محبت سے جوڑو، مخلوقِ خدا کی خدمت کرو اور اللہ کی رضا حاصل کرو۔
Leave a Reply