تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
ہم جس دنیا میں رہتے ہیں، اپنی زندگیاں جیتے ہیں، اپنے دکھ سکھ کو بھگتتے ہیں، بھلے کانٹوں بھری راہیں ہوں یا پھولوں سے مہکتے ہوے گلزار رستے ،ہم روتے ہنستے آگے سے آگے بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں. کبھی سوچا ہے آپ نے کہ ہم کیوں آگے سے آگے بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں؟، اور کچھ کر نہیں سکتے ناں، یا پھر یوں کہہ لیجیے کہ ہمارے اختیار میں ہی نہیں ہوتا کہ ہم کسی من پسند شخص یا من پسند ساعت کے ساتھ چند لمحے اپنی مرضی سے بیٹھ کے وقت کو تھوڑا اپنے اختیار میں کر لیں، ہم تقدیر کے ہیر پھیر میں اس بری طرح سے جکڑ دییے گیے ہیں کہ کولہو کے بیل کی طرح بند آنکھوں سے ہمیں بس گول گول چکر لگانا ہی زندگی بتانا لگتا ہے. ہم اپنی اپنی زندگیوں کی قید میں اتنے زیادہ قید ہیں کہ ہمیں نہ کچھ دکھائی دیتا ہے نہ سنای دیتا ہے اور نہ ہی سجھای دیتا ہے، اور آنکھیں اس وقت کھلتی ہیں جب ہمارے ساتھ ساتھ چلنے والی ایک دوسری دنیا جو ہمیں دکھای نہیں دیتی جس میں مختلف اقسام کے جراثیم، بیکٹیریا، اور وایرس وغیرہ شامل ہیں ہماری اچھی بھلی صحت پہ حملہ کر کے ہمیں بیمار کر دیتے ہیں تو پھر ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ صحت کتنی بڑی نعمت اور بیماری کتنا بڑا عذاب ہے،لیکن خوشی اس بات کی ہے کہ بیماریوں کے ساتھ ساتھ ان کی شفا کا بھی اہتمام مالک کل دو جہاں نے خوب کیا. قدیمی لوگ زخموں پہ شہد، سرکہ یا نمک لگاتے تھے 1796 میں ایڈورڈ جینز نے چیچک کی ویکسین ایجاد کر کے انسانوں پہ احسان عظیم کیا. اور پھر Rabies, Diphtheria, yellow fever, Pertusis, influenza, HPv, Dainge اور پھر 2019 میں کرونا ویکسین کی ایجاد نے انسانوں میں دوبارہ سے جینے کی امنگ پیدا کر دی.آج بات ہو گی H P V, ہیومن پیپی لوما ویکسین جو کہ بچہ دانی کے منہ کے کینسر کی روک تھام کے لیے نو سے چودہ سال کی بچیوں کو لگای جاتی ہے، اس ویکسین پہ ریسرچ 1980 اور 1990 کی دہای میں ہوی اور 2006 میں اس کا استعمال شروع کر دیا گیا. تو بچہ دانی کے منہ کا کینسر ہوتا کیسے ہے ؟تو یہ غیر محفوظ جنسی ملاپ سے ہوتا ہے اور اس کا پھیلاو ایک چین کی شکل میں ہوتا ہے، مرد سے مرد، مرد سے عورت اور عورت سے مرد. چونکہ عورتیں اس کا شکار زیادہ ہوتی ہیں اور اس وایرس کی تقریباً دو سو اقسام ہیں مگر زیادہ خطرناک وایرس 16 اور 18 ہیں تو یہ وایرس بچہ دانی کے منہ پہ جا کے بیٹھ جاتا ہے اور تقریباً پانچ سے دس سال کے عرصے میں نارمل خلیوں میں ایسی خرابی کا باعث بنتا ہے کہ وہ کینسر جیسے موذی اور جان لیوا مرض cervical carcinoma کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے ،جس کا علاج تقریباً ناممکن ہے، لہذا اس کینسر سے بچاو کے لیے ویکسینیشن بچیوں کو ضرور لگوانی چاہیے، تاکہ بچیوں کو اس موذی مرض سے بچایا جا سکے، ہمارے ملک میں حکومتی سطح پر اس کینسر سے بچاو کے لیے سکولوں میں والدین کی اجازت سے لگای جانے والی ویکسین پہ شکوک و شبہات کو ایک طرف رکھ کے اپنی بچیوں اور اس ملک و قوم کے مستقبل پہ رحم کیجیے، پولیو کی ویکسین اور ویکسینیشن ٹیموں کے ساتھ کیا جانے والا سلوک اس بات کا گواہ ہے کہ ہم اپنی صحت کے معاملے میں بھی حد درجہ جہالت کا مظاہرہ کرنے میں کوی کمی نہیں چھوڑتے، اسی لیے پولیو صرف اس وقت ہمارے لیے ایک چیلنج ہے. خدارا بچہ دانی کے منہ کے کینسر سے اپنی بچیوں کو بچانے کے لیے ابھی سے سد باب کیجیے ورنہ حفصہ کی ماں کی طرح جب آپ کینسر کی چوتھی سٹیج پہ اپنے علاج کیلئے ڈاکٹرز سے رابطہ کریں گے اور ڈاکٹرز آپ کو آپ کی زندگی کے بجھتے ہوے دییے کے بارے میں کچھ معلومات فراہم کریں گے تو آپ کے اور آپ کی بچیوں کے پاس ماسوائے یہ پوچھنے کے اور کوی سوال نہیں ہو گا کہ میرے پاس کتنا وقت بچا ہے ڈاکٹر.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
Leave a Reply