rki.news
تحریر: ڈاکٹر منور احمد کنڈے۔ ٹیلفورڈ۔ انگلینڈ
اسلامی تاریخ کی روشن ترین مثالوں میں حضرت حر بن یزید ریاحی کا ذکر ایک ایسی شخصیت کے طور پر آتا ہے جس نے آخری لمحے میں حق و صداقت کو پہچان کر نہ صرف اپنی تقدیر سنوار لی بلکہ قیامت تک آنے والے انسانوں کو توبہ، فہم، وفا اور شجاعت کا لازوال سبق دیے دیا۔ ان کا تعلق بنو ریاح قبیلے سے تھا جو بنو تمیم کی ایک شاخ تھی۔ کوفہ میں ان کے خاندان کو معزز مقام حاصل تھا۔ ان کے والد ماجد یزید بن ریاح کی دیانت داری، جرات اور فہم و فراست بہت مشہور تھی، اور انہی صفات کا عکس حضرت حر کی شخصیت میں بھی نمایاں نظر آتا تھا۔
انہوں نے جوانی ہی میں صدقِ دل سے اسلام قبول کر لیا تھا اور اپنی عسکری صلاحیتوں کے باعث اسلامی فوج میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ ان کی ذہانت، جنگی مہارت اور فرمانبرداری کی بنا پر انہیں یزیدی نظام میں ایک اہم فوجی منصب سونپا گیا۔ جب حضرت امام حسینؑ کا قافلہ کوفہ کی طرف رواں تھا، تو عبید اللہ بن زیاد نے حر کو ایک ہزار سپاہیوں کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ امام حسین علیہ السلام کا راستہ روکیں اور انہیں کوفہ میں داخل ہونے سے باز رکھیں۔ حر نے امامؑ کو کربلا کے مقام پر روک لیا۔
جب حضرت امام حسینؑ سے حر کی پہلی ملاقات ہوئی تو وہ حضرت امامؑ کے رعب و وقار سے متاثر ہوئے، لیکن چونکہ وہ یزیدی حکومت کے نمائندہ تھے، اس لیے چاہتے ہوئے بھی اس وقت حکم عدولی کی جرات نہ کر سکے۔ اس کے باوجود ان کے دل میں بے چینی اور کشمکش شروع ہو چکی تھی۔ انہوں نے حضرت امامؑ عالی مقام کے ساتھ ادب اور نرمی سے پیش آ کر یہ ثابت کر دیا کہ وہ محض ایک حکومتی کارندہ نہیں تھے بلکہ حق کی تلاش میں سرگرداں انسان تھے۔ ان کی بے قراری شب عاشور کو اپنے عروج کو پہنچ گئی۔
شب عاشور پہ جب یزیدی لشکر نے حضرت امام حسینؑ کے خلاف جنگ کا فیصلہ کر لیا تو حر نے ابن سعد سے سوال کیا کہ کیا واقعی وہ رسولؐ کے نواسے سے جنگ کرے گا؟ عمر بن سعد کے غیر سنجیدہ رویے اور حضرت امام حسینؑ کی بے بسی دیکھ کر حر کا دل تڑپ اٹھا۔ ان کے دل نے توبہ کا پختہ ارادہ کر لیا اور اپنے خیمے میں جا کر زرہ بکتر درست کی۔ پھر تیزی سے حضرت امام حسینؑ عالی مقام کے خیمے کی طرف روانہ ہوئے۔
حر نے گھوڑے سے اتر کر خود کو خاک پر گرا دیا اور حضرت امام حسینؑ کے قدموں میں گڑگڑا کر کہا کہ وہ وہی بدبخت ہے جس نے آپؑ کا راستہ روکا تھا۔ انہوں نے امام عالی مقام علیہ السلام کے سامنے اپنے گناہ کا اعتراف کیا اور امام عالی مقام علیہ السلام سے مودبانہ سوال کیا کہ کیا ان کے لیے اب بھی توبہ کی کوئی گنجائش موجود ہے؟ ۔۔ امام حسینؑ نے نہایت شفقت سے فرمایا کہ تمہارا نام ہی حر ہے، تم دنیا و آخرت میں آزاد ہو گئے ہو۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ایک دل شکستہ سپہ سالار حق و صداقت کے سب سے مضبوط و بہادر سپاہی میں بدل گیا۔
حضرت حر کے ساتھ ان کا نوجوان فرزند علی بن حر بھی موجود تھے۔ جب حضرت حر نے حق کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو فرزند ارجمند علی بن حر کے دل نے بھی اپنے عظیم پسر کا بلا تردد ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا۔ اس طرح یہ باپ بیٹا دونوں قربانی، وفا اور سچائی کا ایک عظیم نشان بن گئے۔ کربلا کے میدان میں دونوں نے دشمن کے خلاف شجاعت سے جنگ لڑی اور آخرکار راہِ حق میں شہادت کا رتبہ حاصل کر لیا۔ علی بن حر نے بھی اپنے والد کی مانند راہِ صداقت میں قربانی پیش دی اور امام حسین علیہ السلام کی خوشنودی حاصل کر لی۔
عاشور کے دن حضرت حر نے امام حسین علیہ السلام سے میدانِ جنگ میں جانے کی اجازت طلب کی۔ اجازت ملنے پر انہوں نے بے خوف ہو کر دشمن کے سامنے علمِ حق بلند کیا۔ ان کی تلوار سے یزیدی سپاہی لرزنے لگے۔ انہوں نے کئی دشمنوں کو جہنم واصل کیا، لیکن آخرکار دشمن کے نیزوں اور تلواروں سے چور چور ہو کر زمین پر گر پڑے۔ حضرت امام حسینؑ خود ان کے قریب پہنچے، بہت شفقت سے حر کا سر اپنے زانو پر رکھا اور فرمایا کہ تم نے اپنا وعدہ پورا کیا، تم کامیاب ہو گئے۔
حضرت حر کی شہادت کے بعد ان کا جسد خاکی کربلا کی حدود سے کچھ فاصلے پر دفن کر دیا گیا۔ بعد ازاں وہاں ایک خوبصورت روضہ تعمیر کیا گیا جو آج بھی زائرین کے لیے زیارت گاہ ہے۔ مزار پر لکھا ہے کہ یہ حر بن یزید ریاحی کا مزار ہے جس نے حسینؑ کی نصرت کی اور ان کا ساتھی بن کر لڑتے ہوئے شہادت کا عظیم مقام حاصل کر لیا۔
حضرت حر بن یزید ریاحی کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ انسان چاہے جتنا بھی گناہگار کیوں نہ ہو، اگر دل سے توبہ کر لے اور حق کو پہچان کر اس کا ساتھ دے تو اللہ تبارک و تعالی اپنی خاص رحمت کےدروازے اس پر کھول دیتا ہے۔ حضرت حر کی توبہ، ان کا اقدام، اور ان کی شہادت تاریخ اسلام کے ان درخشاں اوراق میں شمار ہوتے ہیں جو ہر عہد کے انسان کو ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔ ان کی کہانی صرف ایک فوجی سپاہی کی نہیں ہے بلکہ ایک بیدار دل عظیم انسان کی ہے جس نے اپنی انا، حیثیت، اور حکومتی مال اور وفاداری کو ٹھکرا کر اور حق و صداقت کا ساتھ دے کر دین و دنیا میں سرخرو ہو گیا۔
۔۔۔
مستند کتب سے ماخوذ حوالہ جات درج ذیل ہیں:
1. طبری، تاریخ الأمم والملوک، جلد ۵، صفحہ ۴۳۳-۴۳۸
2. شیخ عباس قمی، نفس المهموم، صفحہ ۱۷۰-۱۸۰
3. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، جلد ۴، صفحہ ۶۸-۷۲
4. علامہ مجلسی، بحار الانوار، جلد ۴۵، صفحہ ۱۱۲
5. ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، جلد ۴، صفحہ ۹۹
6. علامہ ابن نما، مثیر الأحزان، صفحہ ۵۶
7. محمد مہدی شمس الدین، انصار الحسین، صفحہ ۲۱۲
Leave a Reply