تازہ ترین / Latest
  Saturday, October 19th 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

حیف اس شاہ کی شہنشاہی پہ

Articles , Snippets , / Wednesday, June 26th, 2024

حنیف باجوہ بجلی کے محکمے میں بہت بڑے عہدے پہ ایک عرصے سے براجمان تھے. ملک میں پھیلی ہوئی انارکی اور نفسا نفسی کی فضا نے جہاں ملک میں رہنے والوں تمام لوگوں کو حواس باختہ کر رکھا تھا وہیں ذی ہوش و باشعور اہل مروت لوگوں کی نیندیں بھی اڑن چھو ہو چکی تھیں. سوچنے والے دماغ، دیکھنے والی آنکھیں اور محسوس کرنے والی ارواح سوچ، سمجھ اور دیکھ رہے تھے کہ کچھ نہیں بہت کچھ غلط ہو رہا ہے کھوتے گھوڑے کے competition میں کھوتے تو بازی لے ہی چکے تھے مگر ایک چیز جو بڑے پیمانے پہ غلط ہو رہی تھی وہ یہ تھی کہ غریبوں کے منہ سے نوالہ چھین کے امراء کے منہ میں ڈالا جا رہا تھا. غریب رو رہے تھے، سسک رہے تھے، بلک رہے تھے ان کی آہیں، سسکیاں اور چیخیں عرش کے پرخچے اڑاتی پھرتی تھیں مگر اہل منصب و منصف دونوں ہی اندھے، گونگے اور بہرے ہو چکے تھے.
عام انسان، غریب غربا گلیوں میں بلبلاتے تھے
کون سنتا میری دوہاییاں پھر
کون اشکوں پہ باندھ دیتا بند
میرے زخموں کو، آبلوں کو پھر
کون مرہم لگاتا الفت کے
کون روتوں کو ہنساتا پونم
کون سوتوں کو جگاتا پونم
کون سنتا میری دوہاییاں پھر
کون اشکوں پہ باندھ دیتا بند
تو حنیف باجوہ بھی ایک عرصے سے اس لوٹ کھسوٹ کے دیار میں اپنے دامن کو ہر طرح کی آلودگی سے بچا کے افسری کیے جاتے تھے کیونکہ وہ اس بات پہ سختی سے عمل پیرا تھے کہ اپنے کنبے کو رزق حلال کا لقمہ کھلانے کو اپنی ذمہ داری اور جینے کا مقصد گردانتے گردانتے موجودہ دور کی ناانصافی کی بند گلی میں آ داخل ہوے تھے مسئلہ یوں بھی گھمبیر ہو چکا تھا کہ بجلی کے بلوں میں اضافہ خوفناک ہی نہیں ظالمانہ اور غیر منصفانہ بھی تھا. ایک تو بجلی کا نرخ پر یونٹ بڑھا دیا گیا تھا دوسرے اضافی ٹیکس کی بھر مار نے عوام کی مت مار دی تھی اور یہ کھلی دھاندلی تو کسی کے حلق سے بھی نہ اترتی تھی کہ پہلے دو سو یونٹ پہ3083 روپے اور اگر یونٹ 201 ہو جاءیں تو بل 8154 روپے. حیف ہے حیف ہے اور پھر اگلے چھ ماہ تک یہی بل یعنی 8154 روپے غریب، مجبور اور بے بس و بے کس صارف کو سزا کے طور پہ ادا کرنا ہی پڑے گا اور امرا اور شرفا کو بجلی، پانی، گیس، پٹرول، گھر، ملازمین و دیگر مراعات مفت. کتنے افسوس کی بات ہے کہ معاشرے میں عدم برداشت کی فضا کو بڑے پیمانے پر مستحکم کرنے کے جتن اور بھونڈی کوششیں کی جا رہی ہیں. نہ ملک میں ملازمت کے مواقع نہ انصاف کی فراہمی کے باقی معاملہ جات زکوٰۃ بھی مستحقین تک نہیں پہنچ پاتی تو اس نفسانفسی کے عالم میں بھوکے پیٹ سونے والے کی بد دعا کیا عرش معلیٰ کو ہلانے کے لیے کافی نہیں ہے. حنیف باجوہ صاحب چونکہ اس کھلم کھلا نا انصافی کے خلاف کچھ بھی کرنے سے قاصر تھے تو احتجاج کے طور پہ مستعفی ہو گیے. کیونکہ وہ اپنے اہل و اعیال کی کفالت کے ذمہ دار تھے اور انھیں رزق حلال کھلانے پہ یقین رکھتے تھے تو اس ٹیڑھے میڑھے نظام کو رد کرتے ہوے ایک طرف ہو گیے.
ہر گھر کا سربراہ اپنے گھر کے تمام لوگوں کے قول و فعل کا ذمہ دار ہے جیسے خاتون خانہ اپنے شوہر، بچوں کی ذمہ دار ہے ملازم کی اپنی ذمہ داریاں ہیں بچوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنی پڑھائی توجہ سے کریں. جیسے اللہ پاک فرماتے ہیں کہ تم میں ہر آدمی ذمہ دار ہے اورہر آدمی اپنے ماتحتوں کے بارے میں جواب دہ ہے. ہر کسی کو اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہیں ایمانداری اور پاسداری سے ورنہ وہی صورت حال پیدا ہو جاے گی جس سے ہم اور آپ آج کل نبرد آزما ہیں.
ایک بادشاہ تھا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن کی سلطنت کا رقبہ تقریباً بایس لاکھ مربع میل تھا اور انہیں اپنی رعایا ہی نہیں اپنی رعایا کے جانوروں کا بھی خیال تھا اور فرماتے تھے کہ اگر دجلہ کے کنارے کوی کتا بھی بھوکا، پیاسا مر گیا تو اسکی پوچھ بھی مجھ سے ہو گی گویا حاکم وقت اپنی رعایا کے دکھ درد کے مداوے کا ذمہ دار ہے.
سوال
حاکم وقت سے سوال ہو گا
ایک ایک عمل کا حساب ہو گا
کیا رونے والوں کو ہنسا آے؟
لوگوں کے مسلے سلجھا آے
یا
روتوں کو اور تم رلا آے
اور اتنی بڑی سلطنت کا حاکم آخری سانسوں پہ بی بی عایشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہجرے میں تدفین کے لیے بڑی عاجزی سے اپنے بیٹے کے توسط سے اجازت لیتا ہے .
یہ ہیں شہنشاہ اور یہ ہیں انداز شہنشاہی.
مگر افسوس جس عہد بے مروت سے ہمیں پالا ہے وہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے سارا ظلم غریبوں پہ.
کتنے ٹیکس لگاو گے
کتنے ٹیکس لگاو گے
کتنے ظلم ڈھاو گے
جن کے ہاتھوں چھالے ہیں
در بدر بنجارے ہیں
کھانے کو روٹی بھی نہیں اور
میسر نہیں علاج جنہیں
ان پہ ٹیکس لگاتے کیوں ہو؟
راتوں کو جگاتے کیوں ہو؟
کتنے ٹیکس لگاو گے
کتنے ظلم. ڈھاو گے
تو ظلم کے زاویے بڑھنے لگے اور طوق غلامی مقدر ہوا غریبوں کا. کاش اس عہد بے مروت میں شہنشاہ کو آدابِ شہنشاہی کوی سکھا جاے. کہیں سے تازہ سی ہوا آے.
حیف اس شاہ کی شہنشاہی پہ
حیف اس شاہ کی شہنشاہی
حیف اس بھوک پہ تباہی پہ
حیف اس ساری بے حیائی پہ
حیف دنیا کی بے نوای پہ
شاہ کا خوان سج گیا پونم
اور مفلس سدا دوہای پہ
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
drnaureenpunnam@gmail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International