rki.news
راجا ناصر محمود – قطر
مشہور یونانی فلاسفر ارسطو نے حضرتِ انسان کو حیوانِ ناطق یعنی سمجھ بوجھ اور عقل و شعور رکھنے والا حیوان کہہ کر گویا انسانوں اور حیوانوں کے درمیان دیوارِ چین کھڑی کر دی تھی لیکن اِس کے باوجود کچھ خاص قِسم کے حیوانِ ناطق ، حیوان برادری سے میل جول اور قرابت داری رکھنے میں بڑا مزہ اور لُطف محسوس کرتے ہیں ۔ ذرا بڑھک بازی ہی کو لے لیں جو سرا سر بیلوں کا فعل ہے لیکن اب حیوانِ ناطق کا ایک بڑا طبقہ بھی بڑھکیں مارنے کا عادی ہو چکا ہے جِس کی وجہ اُن کی بیل سے بے پناہ محبت ہے ۔ اِس اندھی محبت میں وہ کبھی کبھار ” آ بیل مجھے مار“ کہہ کر اُس سے بخوشی مار بھی کھاتے ہیں ۔ حیوانوں سے اندھی محبت رکھنے کی وجہ سے یہ اپنے ارد گرد انسانوں کو شیر، گدھا، اُلو یا اُلو کا پٹھا جیسے القابات سے مخاطب کر کے انجانی خوشی محسوس کرتے ہیں ۔ اِن میں سے ہی کچھ چرندوں کے دِلداہ ہیں اور اُن کی طرح جگالی کرنا بہت پسند کرتے ہیں۔ خاص کر کھیل کے میدانوں میں اپنے ارد گرد ہرا بھرا گھاس دیکھ کر آپ کو یہ اکثر جگالی کرنے میں مصروف نظر آئیں گے۔ یہ بھیڑ جیسے معصوم حیوان سے بھی بے پناہ محبت کرتے ہیں اور اپنی ساری زندگی اُس کی تقلید کرتے ہوئے بھیڑ چال میں گذار دیتے ہیں۔ اسِ کے علاوہ یہ گرگٹ کے رنگ بدلنے کے عمل سے بھی بڑا محظوظ ہوتے ہیں اور اُس کی نقل میں رنگ برنگے میچنگ قسم کے ملبوسات پہن کر رنگ بدلتے رہتے ہیں۔ البتہ یہاں اِن کا ایک قابلِ تعریف عمل بھی سامنے آیا ہے کہ دولت آجانے کے بعد اب گاڑیوں کی موجودگی میں یہ گھوڑے بیچ کر دوپہر تک سوتے رہتے ہیں کیونکہ اگر گھوڑے پر سواری نہیں کرنی تو دانشمندی یہی ہے کہ اُسے بیچ کر خوابِ خرگوش کے مزے لئے جائیں ۔
آج کل حیوانِ ناطق کا کچھ حیوانات کے بارے میں بلاوجہ طنزیہ اور دھمکی آمیز رویہ بھی دیکھنے میں آ رہا ہے۔ بکرے جو اُنھیں سال بھر مٹن کی لاتعداد مزیدار ڈشیں فراہم کرتے ہیں اُن کو” تیری ماں کب تک خیر منائے گی “ کی دھمکی دینا سمبھ سے بالاتر ہے۔ اِسی طرح اونٹ جیسے مفید حیوان پر طنز کرنا کہ” تمھاری کون سی کل سیدھی ہے “ اِس شریف النفس حیوان کی کھلی تذلیل ہے۔ علاوہ ازیں کچھ جانوروں کی ذاتی قسم کی سرگرمیوں کو درس و تدریس کا حصہ بنا کر اُن کی تضحیک کی جاتی ہے۔ خرگوش اور کچھوے کی مشہورِ زمانہ دوڑ جو صرف باقی حیوانات کی تفریح طبع کے منعقد کی گئی تھی اُسے طلباء کو کچھوے کی رفتار کی اہمیت بتانے کے لیے یاد کروایا جاتا ہے۔ اچھے اور ہونہار طلباء جو یہ کہانی لکھ کر امتحان میں پورے نمبر حاصل کرتے ہیں وہ کچھوے کی رفتار سے اتنا متاثر ہو جاتے ہیں کہ بڑے ہو کر مُلک کی تعمیر و ترقی کے لیے کچھوے کی رفتار کو ہی آئیڈیل سمجھتے ہیں اور اِس سے زیادہ کسی قسم کی تیز رفتاری اُنھیں ہرگز قبول نہیں۔ پیاسے کوے کا بھی اِن کے ذہنوں پر کافی اثر ہے اور یہ لوگوں کو جدید فلٹریشن پلانٹس کا پانی مہیا کرنے کے لیے تیار نہیں بلکہ اِن کے خیال میں لوگوں کو تالابوں ، کنوؤں ، چشموں اور نہروں سے پیاسے کوے کی طرح ذہانت استعمال کر کے خود پانی نکال کر اپنی پیاس بجھانے کی نئی نئی تراکیب سوچنی چاہئیے۔
جنگلات ، چرند پرند اور ہر طرح کے حیوانات کا خوب صورت مسکن اور محفوظ ٹھکانہ ہیں۔ پاکستان میں تقریباً پانچ فیصد رقبے پر جنگلات ہیں جو جنگلات کی عالمی اوسط اکتیس فیصد سے بہت نیچے ہے ۔ یہاں ٹِمبر مافیا نے جنگلات کو تباہ کر کے نہ صرف جنگلی حیات کا وجود خطرے میں ڈالا ہے بلکہ کئی طرح کے ماحولیاتی مسائل بھی پیدا کر دیے ہیں۔ جنگلات کو ختم کر کے حیوانوں کو گھر بے گھر کرنا قطعاً دانشمندی نہیں ہے۔ کیونکہ وہ سب وہاں بڑے امن و سکون سے زندگی گذار رہے ہیں ۔ وہاں اقتدار کے لیے کسی قسم کی کوئی سازش ، لالچ یا رسہ کشی نہیں ہے۔ جنگل کے تمام مکین شیر کو دل و جان سے اپنا بادشاہ مانتے ہیں اور اُس کے بنائے ہوئے جنگل کے قانون کا احترام کر کے سکون سے رہ رہے ہیں۔ یہاں میں حیوانِ ناطق کے ایک قابلِ ذکر کارنامے کا حوالہ ضرور دینا چاہوں گا کہ اِن میں سے اگر کوئی کسی حکومتی عہدے تک رسائی حاصل کر لے تو وہ شیر کے طرزِ حکمرانی سے شدید متاثر ہونے کی بنا پر جب تک اپنے زیرِ اثر حلقے میں جنگل کا قانون نافذ نہ کرلے، چین سے نہیں بیٹھتا کیونکہ اپنے اقتدار کو قائم رکھنے اور طول دینے کے لیے اُسے جنگل کے قانون سے بہتر کوئی اور تیرِ بہدف نسخہ نظر نہیں آتا۔ جنگل کے قانون کو روئے زمین پر پھلتا پھولتا دیکھ کر اُسے بڑی خوشی، اطمینان اور فخر محسوس ہوتا ہے۔
Leave a Reply