rki.news
عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خدا کے وجود پر ہندوستان کی سر زمین پر ہوئی تازہ بحث کا آج کل بہت شہرہ ہے۔ ہر چند کہ مفتی شمائل ندوی اور جاوید اختر کے درمیان ہوئی اس بحث کا خوش آئند نتیجہ سب کے لئے مسرت کا باعث ہے۔ جاوید اختر جن کا زیادہ دارومدار انسانی احساسات پر ایسی عمارت کی تعمیر تھی جس عمارت کے اندر سے وہ خدا کا وجود نکال سکیں۔ وہ لفاظی کے کاغذ میں لپیٹ کر جھوٹ بولنے کو مقابلے میں اپنی کامیابی کا دارومدار سمجھتے ہوئے کلین بولڈ ہو گئے۔ اس کامیابی کے لئے مفتی شمائل ندوی چہار جانب سے ملنے والی مبارکبادیں وصول کر رہے ہیں ۔
یہاں ایک سوال عام ذہن میں ضرور ابھرتا ہے۔ کیا ایک حقیقت کے لئے بحث کرنے کی واقعی کوئی ضرورت بھی ہے؟ یا اس حقیقت کے بارے میں نا ماننے والے کو صرف سمجھانے کی ضرورت ہے؟ کیا اس موضوع کو زیر بحث لا کر مناظرے جیسی کیفیت قائم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم مخالف کے کسی بھی نقطے کو ممکنات میں سے سمجھتے ہیں؟ کیا اگر مخالف کوئی ایسا پوائنٹ لے آئے، جس کا جواب اس وقت مقابل میں موجود دوسرے صاحب کے پاس نہ ہو تو نعوذبااللہ کیا دنیا یہ کہہ پائے گی کہ خدا کے انکاری آج کی بحث میں کامیاب تھے؟ جب ایسا کوئی بھی فیصلہ ممکنات میں سے ہے ہی نہیں، تو ایسی بحث کی ضرورت کیا ہے، جو حقیقت کے بر خلاف ہے؟ ہاں خدا کے نہ ماننے والوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے جو کسی بھی پلیٹ فارم پر بنا کسی بحث کے سمجھائی جا سکتی ہے۔
ماضی کا ایک واقعہ بہت مشہور ہے کہ امام ابو حنیفہ رح کے دور میں کسی شخص نے نبوت کا دعوٰی کیا۔ بڑے بڑے علماء اس سے مناظرے کر رہے تھے۔ امام صاحب کے ایک شاگرد نے عرض کی، کہ حضرت آپ سے زیادہ علم کس کے پاس ہے۔ آپ کیوں مناظرہ نہیں کرتے ہیں؟ امام صاحب نے فرمایا ہمارا ایمان ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اب جو بھی نبوت کا دعوٰی کرے گا وہ ہمارے نزدیک جھوٹا ہے۔ اس سے کسی بھی مناظرہ کرنے کا مطلب ہوا کہ ہم اس کو دعوت دے رہے ہیں، کہ اگر تم سچے ہو تو اپنی سچائی میں کوئی دلیل لاؤ۔ جب ہمارے نزدیک کوئی دلیل ممکن ہی نہیں، تو ہم کس بات پر بحث کریں؟
اب فرض کریں کل کو کوئی اندھا شخص کہے میں سورج کے وجود کا قائل نہیں ہوں۔ تو آپ اس سے بحث تھوڑی کر کے کہیں گے اچھا تم اپنے دلائل لاؤ ہم اپنے دلائل لاتے ہیں۔ آپ کہو گے ارے یہ تو پاگل ہے اور پاگل سے کیا بحث۔ روز تو یہ سورج کے وجود سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اب ان سے ایسی فضول بحث میں کون پڑے۔ زیادہ سے زیادہ بنا بحث کے آپ اس کو دھوپ میں کھڑا کر کے کہیں گے سورج کی گرمائش محسوس کر ، خود سورج کا پتہ چل جائے گا۔
کیا اللہ کے کسی بھی نبی نے پیغام پہنچاتے ہوئے اپنی سچائی کے لیے بحث کا راستہ اختیار کیا؟ یا اپنا پیغام لوگوں کو بات کے ذریعے سے سمجھایا اور پہنچایا؟ وہ اپنی بات پر حرف آخر کی طرح قائم تھے ۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ اگر تم نے اپنا پوائنٹ ثابت کیا تو ہم مان لیں گے، کیونکہ ایسا کوئی مخالف پوائنٹ مانا ہی نہیں جا سکتا۔
فلسفی کو بحث میں اس کا خدا ملتا نہیں
ڈور کو سجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں
اب سوچیں خدا کے وجود سے انکاری ہونے والے سے بحث کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟ ہاں آپ ان کو سمجھا سکتے ہیں کہ جناب خدا کو تو آپ بھی مانتے ہیں۔ تب ہی تو آپ کے نا ماننے میں دلائل سے زیادہ صرف شکوے ہیں اس ذات سے کہ وہ یہ کیوں نہیں کرتا ؟ وہ انسانوں کے مظالم کم کیوں نہیں کرتا، اور ان سب سوالات کے جوابات قرآن مجید میں خود اللہ تبارک و تعالٰی نے کھول کھول کر بیان کر دئیے ہیں۔ سو ایسے نا سمجھوں سے بحث کے بجائے ان کو قرآن شریف کا تحفہ دے دیں، پھر جو قرآن پڑھ کر بھی سمجھ نہ سکا، وہ آپ کی بحث سے بھی کبھی نہیں سمجھے گا۔ ایسے ہی جیسے تازہ بحث کے اختتام پر جاوید اختر اپنے ذہن میں موجود نظریات سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹے، اور اپنے نظریات پر قائم رہتے ہوئے محفل سے چلتے بنے۔ یہی بات بحث کے بجائے سمجھانے پر بھی زور دیا جا سکتا تھا۔ جس بحث کا عنوان ہوتا ‘ ہمارا خدا سدا قائم رہنے والا ہے ، تم کیسے مانو گے ‘۔ موجودہ عنوان ‘ کیا خدا کا وجود ہے ‘ ایک ایسا عنوان ہے جس عنوان کے تحت بحث کرنا مخالف کو یہ کہنا ہے کہ مضبوط دلیل لاؤ تو ہم آپ کی بات مان لیں گے۔
خدا کے وجود سے انکار کرنے والے چاہتے بھی یہی ہیں، کہ آپ ان سے لاحاصل بحث میں الجھیں۔ ایسی بحث جس سے ان کو ہارنے کے باوجود اپنا پیغام کچھ ذہنوں تک پہنچانے کا موقع مل سکے۔ ہر ذہن پختہ نہیں ہوتا، کچھ کچے ذہن کسی بھی ایسی دلیل سے ڈھیر ہو سکتے ہیں، جس کا جواب ایک اعلٰی ذہن دے کر ان کا توڑ کر سکتا ہے۔ سو ان کا بنیادی مقصد بڑے پلیٹ فارمز حاصل کر کے اپنی بات ان تک پہنچانے کی کوشش کرنا ہے، جو ان کے نزدیک کچے ذہن ہیں۔ اس لئے کسی ایسے عنوان پر بحث کرنے سے اجتناب ہی کرنا چاہئیے۔ جہاں آپ کے قدم کی ذرا سی لغزش کسی بڑے نقصان کا اندیشہ رکھتی ہو۔
اللہ کا وجود ہمیشہ سے ہے ، ہمیشہ کے لئے ہے اور ہمیشہ ہمیش رہے گا ۔ یہ ہمارے ایمان کا جزو اول ہے اور ایمان کے جزو اول پر بحث کی گنجائش نہیں ہوتی۔ دعا تو یہی ہوتی ہے کہ اللہ سب کو عقل سلیم عطا فرمائے، لیکن کیا ایسا ممکن ہے، کہ سب ہی اس راستے کا انتخاب کریں جو کامیابی کا راستہ ہے؟ اس صورت میں ابلیس کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ ویسے کیا وجہ ہے خدا کے وجود پر بحث کرنے والے کبھی اس پر بحث نہیں کرتے کہ شیطان کا کیا کام ہے؟ لگتا ہے ان کو شیطانیاں کرنے کی عادت بھی شیطان سے مل کر ہی آتی ہیں
Leave a Reply