تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.con
حالیہ دنوں میں امریکہ نےایران کو خط بھیجا ہے۔اس خط کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےتہران کوجوہری معائدہ کے لیےدو ماہ کی مہلت دی ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق امریکی صدر نےامریکہ اور ایران کے درمیان نئےجوہری معاہدے کی تجویز پیش کی اور دھمکایابھی ہے کہ اگر اس نے جوہری پروگرام جاری رکھا تو نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ایران پہلے سےہی پابندیوں کی زد میں ہےاور کچھ دن پہلے مزید پابندیاں لگائی گئی تھیں۔ایران کی ایک اہم شخصیت،اداروں اور بحری جہازوں کو پابندیوں کی زد میں لایا گیا۔ایک چینی نجی شعبہ کی آئل ریفانری بھی پابندی کی زد میں آئی،کیونکہ اس پر شبہ تھا کہ وہ ایرانی تیل کی خریداری اور پراسیسنگ میں ملوث ہے۔پابندیاں ایرانی تیل کی فروخت کو روکنے کے لیے لگائی گئیں۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر اس لیے پابندیاں لگائیں کہ ایران کو دباؤ میں لایا جائے۔ان پابندیوں کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ایران کی خام برآمدات کو صفر تک لایا جائےاور اس طرح ایران کےجوہری پروگرام کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔تہران واضح کر چکا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مثبت مقاصد کے لیے ہے،لیکن مغربی قوتیں اس بات پر یقین نہیں رکھتی کہ یہ پروگرام مثبت مقاصد کے لیے ہے۔مغربی قوتوں کے مطابق یورنیم کو اس حد تک افزودہ کیا جا رہا ہےکہ ان سے جوہری ہتھیار بنائے جا سکتے ہیں اور یہ ہتھیار فوجی مقاصد کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں۔ان امریکی پابندیوں کو چین اور روس نے مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ پابندیاں غیر قانونی ہیں۔ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ نئی امریکی پابندیاں قانون شکنی اور منافقت کاواضح ثبوت ہیں۔امریکی خط میں دو ماہ کی مہلت دی گئی ہےکہ مذاکرات کیے جائیں۔اس خط کا یہی مقصد ہے کہ ہر حال میں امریکی مطالبات تسلیم کیےجائیں۔اس بات کا امکان ہے کہ مطالبات تسلیم نہیں کیےگئےتوایران کےخلاف امریکہ کوئی بھی ایکشن لے سکتا ہے۔لازمی بات ہے کہ امریکہ جنگ ہی چھیڑے گا۔
ایران شدید دباؤ کا شکار ہو گیا ہے،کیونکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مقابلے میں یہ بہت ہی کمزور پوزیشن پر ہے۔ایران کوروس یا چین کی طرف کچھ مدد مل سکتی ہے لیکن اتنی نہیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا مقابلہ کر سکے۔ہو سکتا ہے کچھ زیادہ مدد مل جائے،لیکن اس صورت میں روس اور چین کے خلاف بھی محاذ کھل سکتا ہے۔ایرانی تیل مارکیٹ میں پابندیوں کی وجہ سے فروخت نہیں ہو رہا اور اسی وجہ سےایران اقتصادی لحاظ سے خاصاکمزور ہے۔ایرانی تیل کے سب سے بڑے خریداروں میں چین ہے۔چین کی کوشش ہے کہ امریکہ کو کمزور کیا جائے اس لیے امریکہ مخالف گروپ کی طرف اس کا رجوع ہوتا ہے۔امریکہ کی مخالفت چین کے لیے بھی نقصان دہ ہے لیکن مضبوط معاشی حالت کی وجہ سےامریکہ کامقابلہ کر سکتا ہے۔روس اور امریکہ کے حالیہ تعلقات اشارے دے رہے ہیں کہ ان کے درمیان جمی برف پھگل رہی ہے۔امریکہ اگر یوکرین مسئلہ پرلچک دکھا دے تو ایران پر روس لچک دکھا سکتا ہےاور اس بات کا بھی امکان ہے کہ روسی مدد امریکہ کو حاصل ہو جائے۔ایران اس بات کی وضاحت کر چکا ہے کہ دھمکیوں اور دباؤ کےزیر سایہ مذاکرات نہیں ہوں گے۔ایران کی طرف سے سخت رد عمل دینے کا بھی اعلان کیا جا چکا ہے۔ہو سکتا ہے امریکہ کی طرف سے دی گئی مہلت کے دوران کوئی ایسا حل نکل آئے جس سے حالات بہتر ہو جائیں۔
ممکن ہے کہ امریکہ کی دی ہوئی مہلت ختم ہو جائےاور ایران مذاکرات پر آمادہ نہ ہو تو اس صورت میں جنگ چھڑ سکتی ہے۔اسرائیل بھی حملہ کر سکتا ہےاور امریکہ بھی۔امریکہ حملہ کرنے کے لیے ایران کےپڑوسی ملک کی زمین استعمال کرے گا۔اس بات کا امکان بھی ہے کہ اسرائیل اور امریکہ دونوں مل کر ایران پر حملہ کر دیں اور ان کو اتحادیوں کی مدد بھی حاصل ہو سکتی ہے۔دو مختلف سرزمینوں سے حملہ ایران کے لیے خاصہ خطرناک ہوگا۔اگر ایران حقیقتا جوہری توانائی اتنی افزودہ کر چکا ہے جس سےہتھیار بن جائیں تو ایران جوہری قوت کو استعمال بھی کرے گا۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ امریکہ بھی ایٹمی قوت استعمال کر دے۔ایٹمی قوت کوئی بھی ملک استعمال کرے تو انسانوں نے ہی تباہ ہونا ہےاور ایٹمی قوت کا استعمال بہت ہی خوفناک ہوگا۔روایتی جنگ کی صورت میں ایران کمزور پوزیشن پر ہوگا۔ایک تو ایران دفاعی پوزیشن پر ہوگا اور دوسرا فوجی لحاظ سے بھی کمزور پوزیشن پر ہے،ان وجوہات کی وجہ سےایران روایتی جنگ کو لمبے عرصے تک جاری نہیں رکھ سکتا۔اس لیے ایران ہر ممکن کوشش کرے گا کہ جنگ کی نوبت نہ آئے۔ایران امریکی مطالبات تسلیم کر کے جنگ کے خطرے کو ٹال سکتا ہے، لیکن امریکی مطالبات تسلیم کرنے کی صورت میں ایران کے پاس شاید دفاع کے لیے کچھ بھی نہ بچے۔ایران اپنی جوہری قوت کو ہر حال میں بچانے کی کوشش کرے گا۔ایران اس بات پر یقین رکھ رہا ہے کہ اگر جوہری پروگرام روک دیا جائے یا ختم کر دیا جائے تو پھر بھی امریکہ سےبچنا مشکل ہوگا۔عراق کے صدرصدام حسین نےجوہری اور حیاتاتی ہتھیاروں کوروک دیا تھا اور ہر قسم کا تعاون کیا۔صدام حسین کے تعاون کے باوجود بھی ایٹمی ہتھیاروں کا بہانہ بنا کر عراق پر حملہ کر دیا گیا۔عراق پر یہ الزام لگایاگیاتھا کہ جوہری ہتھیاراس کے پاس ہیں۔بعد میں تصدیق ہوئی تھی کہ ہتھیاروں کا صرف بہانہ بنا کر ہی جنگ چھیڑ دی گئی تھی۔2008 میں ریپبلکن صدارتی امیدوار جان مکین نے بھی اس جنگ کو غلطی کہا تھا۔ایران اگر جوہری قوت سے دستبردار بھی ہو جائے تو اس بات کی گارنٹی حاصل کرے گا کہ اس کے خلاف کوئی ایکشن نہ ہو جائے۔ایران کو جوہری قوت سے دستبرداری کی صورت میں بڑا پیکج بھی دیا جا سکتا ہے۔چند ہفتوں یا چند ماہ کے بعد مکمل صورتحال واضح ہو جائے گی۔اگر جنگ چھڑتی ہے تو صرف ایران متاثر نہیں ہوگا بلکہ خطے کی دوسرے ممالک بھی اس جنگ کی زد میں آجائیں گے۔مشرق وسطی میں پہلے ہی آگ بھڑک رہی ہےاور اس جنگ سے آگ میں بہت زیادہ اضافہ ہو جائے گا۔
Leave a Reply