Today ePaper
Rahbar e Kisan International

خواب جو ادھورے رہ گئے

Articles , Snippets , / Tuesday, December 30th, 2025

rki.news

عامرمُعانؔ

ملک کے ممتاز مصنف شہروز کے ناول ‘خواب ادھورے رہ گئے’ کہ تقریب پذیرائی تھی ۔ ناول نے شائع ہوتے ہی قارئین سے سند پذیرائی حاصل کر لی تھی۔ پہلے ایڈیشن کی ہاتھوں ہاتھ فروخت پر ایک شاندار تقریب منعقد کی جا رہی تھی۔ یہ ایک مرڈر مسٹری ناول تھا۔ جس میں قارئین پوری طور کھو جانے کے بعد بھی آخر تک یہ بھید نہیں جان پائے تھے کہ قتل ہوا بھی تھا یا نہیں۔ ناول کی بھول بھلیوں میں الجھی کہانی کی یہی خصوصیت سب کو چکرا رہی تھی۔ سب کردار سامنے ہوتے ہوئے بھی کوئی کہانی کا انجام نہیں جان پا رہا تھا ۔ کہانی میں ایک ایسے کردار کا ذکر تھا جو ایک دن اچانک غائب ہو جاتا ہے۔ اس کے جاننے والے اس کی تلاش میں ہوتے ہیں، لیکن کہیں اس کا کھوج نہیں لگ رہا ہوتا۔  جاننے والوں کا شک اس کی بیوی، اس کے دوست اور اس کے بزنس پارٹنر کی طرف تھا۔ ان کو شک تھا کہ ان میں سے کسی نے اس کو قتل کر دیا ہے، لیکن ناول میں پولیس کی تفتیش سے ان تینوں کا قتل میں کوئی ہاتھ نظر نہیں آتا۔ اس شخص کی گمشدگی کے وقت تینوں اس مقام سے بہت دور تھے، جہاں آخری بار اس شخص کو دیکھا گیا تھا۔ ناول میں یہ بات بھی واضح تھی کہ پولیس کسی بھی شخص کو مردہ تب ہی قرار دے سکتی ہے جب لاش مل جائے۔ لاش کہاں تھی؟ کہانی میں اس شخص کی پرسرار گمشدگی سب کو حیران کر رہی تھی ۔ کہانی میں یہ بات قارئین پر کھلتی جا رہی تھی کہ گمشدہ شخص کے ان تینوں سے کئی ماہ سے اختلافات چل رہے تھے۔ جس کی بنیاد پر اس گمشدہ شخص کے والدین تک کو ان تینوں پر ہی شک تھا۔ کہانی میں پولیس تقتیس میں اس بات تک پہنچتی ہے کہ ان تینوں نے الگ الگ اس شخص کو مارنے کی پلاننگ بہت ہوشیاری سے کی تھی، مگر پولیس کی تفتیش یہ بھی کھوج نکالتی ہے کہ کسی کا بھی پلان پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا تھا۔ ناول میں اسی بات نے قارئین کے لئے جگہ جگہ الجھنیں پیدا کر دی تھیں۔ آخر تک ناول سب کے لئے ایک مسٹری ہی تھا۔ یہ مسٹری ناول میں تب ختم ہوئی جب مصنف آخری باب میں اس شخص کا ایک خط والدین کو ملتا دکھاتا ہے۔ جس میں وہ کردار یہ راز آشکار کرتا ہے، کہ وہ اپنا شہر اپنی مرضی سے چھوڑ گیا ہے، کیوں کہ اس کو ان تینوں سے جان کا خطرہ تھا۔ ناول کے اختتام میں پولیس خط ملنے کے بعد اس کی تصدیق ہینڈ رائٹنگ اسپیشلسٹ سے کرواتی ہے، اور اس کے بعد کیس بند کر کے تینوں مشتبہ افراد کو بری کر دیتی ہے۔ یہاں قارئین کلائمکس اور ناول کے عنوان کو سمجھنے کی ناکام کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ آج کی تقریب میں بھی سب اس سے یہی پوچھنے کو بیتاب تھے کہ آخر اس شخص نے گھر سے جاتے ہوئے خط کیوں نہیں چھوڑ دیا۔ بعد میں لکھ کر کیوں بھجوایا؟ تقریب شروع ہوئی تو سب جواب کے منتظر تھے۔ سب اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ تب شہروز گویا ہوا کہ وہ شخص آغاز میں اپنے تینوں قریبی لوگوں کو اس خواب کی سزا دینا چاہتا تھا، جو اس نے اس رشتوں سے باندھے تھے۔ وہ خواب جو ادھورے رہ گئے تھے۔ اس کو جب ان کی سازشوں کا پتہ چلا تو وہ ان کے درمیان سے یوں غائب ہوا کہ سارا شک ان تینوں کی طرف جائے اور ان  کو بھروسہ توڑنے کی سزا مل سکے۔ سب کا دوسرا سوال تھا تو پھر اس نے آخر میں خط کیوں لکھ کر ان کو بچا لیا؟ تو اس کا جواب تھا کہ تاکہ ان کا بھروسہ اس کی ذات سے قائم رشتوں پر سے نہ ٹوٹے۔ مصنف کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ کامیاب تقریب کے اختتام پر وہ گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔ گھر میں داخل ہوتے ہوتے اس پر مایوسی چھا چکی تھی۔ وہ اپنے ماضی سے چھٹکارا نہیں پا سکا تھا۔ اس کو وہ تینوں کردار یاد آ رہے تھے، جن پر اس کا بھروسہ خود سے زیادہ تھا۔ جو اس کے حسین خوابوں کے قاتل تھے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

© 2025
Rahbar International