Today ePaper
Rahbar e Kisan International

خواب دیکھا کیے ” اپنے گھر” کا

Articles , Snippets , / Thursday, October 23rd, 2025

rki.news

بقلم : احمد وکیل علیمی
دوردرشن کولکاتا
۔…………………………
بچپن میں سُنا کرتا تھا کہ دو قسم کی ذمےّ داریاں نباہنے میں جسم پر صرف ہڈی رہ جاتی ہے۔ پہلی ذمّے داری بیٹی کی شادی اور دوسرا کام ” گھر ” کی تعمیر۔
مذکورہ دونوں ذمّے داریوں سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے آمدنی کا مستحکم ہوناضروری ہے۔ جن اشخاص کی مالی پوزیشن بہتر ہے ، اُن کے لیے مذکورہ دونوں ذمّے داریاں درخورِ اعتنا نہیں ہیں۔ مسئلہ ہمیشہ ان کے لیے رہا ہے جو دُرخوارہیں۔ جس طرح عاجزی اور غریبی تمام مسئلوں کی ماں ہے ٹھیک اُسی طرح جس طرح پیٹ کی بیماری کو
اُمّ المراض کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ۔
بیٹی کی شادی غریبوں کے لیے ایک لمحۀ فکریہ ہے۔ بلکہ بیٹی کی ولادت کے دِن سے ہی مالی طور پر غیر مستحکم والدین بیٹی کے لیے زیورات اور جہیز کی چِنتا میں دوہرے ہوئے جاتے ہیں۔
غربت کا حل اپنےدستِ قدرت میں نہ ہونے کے سبب ایسے گارجین اپنے لیے ذاتی مکان کا خواب دیکھنا تو دوُر کی بات ہے ، بیٹی کی شادی کے اخراجات کی فراہمی میں ان کی پوُری عمر گزر جاتی ہے۔اس لیے مجھ کہنا پڑا ہے
سلسلہ یہ رہا عمر بھر کا
خواب دیکھا کیے اپنے گھر کا
گھر انسان کی زندگی کی وہ پناہ گاہ ہے جہاں محبّت، سکون اور تحفظ کے احساست پیدا ہوتے ہیں۔ ہر شخص کی یہ آرزو ہوتی ہے کہ اس کا ایک ذاتی گھر ہو۔ جس کی دیواروں میں اس کی قربانی اور خوابوں کی جھلک دِکھائی دے۔
” خواب ” آرزوؤں اور خواہشوں کا دوسرا نام ہے۔۔اپنا گھر ہونے کا خواب دیکھنے والوں کی یہ ایک دیرینہ حسرت ہوتی ہے اور یہ حسرت دل میں ہی رہ جاتی ہے۔ مرزا غالب نے کہا ہے کہ
ہزاروں خواہشیں ایسی کی ہر خواہش پہ دم نکلے
دم نکال دینے والی ہزاروں خواہشوں اور جاگتی آنکھوں سے دیکھے گئے خوابوں میں ایک خواب ” گھر” کا بھی ہوتا ہے۔ جو ہر ذی روح کی آ نکھوں میں بستاہے۔ یہ حقیقت ہے کہ خواب جینا سکھاتے ہیں۔ خواب کے آسرے میں زندگی آسان لگنے لگتی ہے۔ اور یہ حسرت امیدوں کی پگڈنڈیوں پر محو سفر رہتی ہے۔ لیکن جب طویل مدّت تک خواب کی تعبیر معدوم رہتی ہےتو مرزا غالب کا یہ مصرعہ تسکین ِ دل بنتا ہے۔
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سُنا افسانہ تھا
کہتے ہیں خواب صبر سکھانے کا سبب ثابت ہوتا ہے۔ اس لیے جون ایلیا کہتے ہیں۔
خواب ٹوٹے ہیں تو کچھ ٹوٹا نہیں
دِل ابھی زندہ ہے ، امیدوں کے سہارے باقی ہیں
ذاتی مکان والوں سے قطع نظر جو کرایے کے مکان میں بسیرا کرتے ہیں ، ان کو کرایے کے مکان میں اجنبیت کے اجساسات کے ساتھ یہ فکر بھی لاحق ہوتی ہے کہ مالکِ مکان کب گھر خالی کرنے کا حکم صادر کردے۔ اس خوف اور تذبذب سے برسرِپیکار کرایے دار اُس وقت خطاوار بنتے ہیں جب مالکِ مکان کی مجبوری بن جاتی ہے کہ مکان ہر حال میں خالی کرنا پڑے۔ ایک بڑی تعداد زندگی بھر کرایےدار رہتے ہوئے کرایے دار کی حیثیت سے ہی لقمۀ اجل بن جاتی ہے۔ لیکن وہ گارجین اور ان کی اولاد جنہوں نے محنت اور جد وجہد کو اپناوتیرہ بنا لیا، نیز تعلیم کی حصولیابی کو لازمی بنایا، ان میں سے ایک بڑی تعداد نے ذاتی گھر ہونے کے خواب کو پورا کرلیا ہے۔ نظر اُٹھتی ہے تو ایسے لوگ دِکھتے ہیں جن کے پاس رہنے کے لیے فقط ایک ایسا کمرہ ہوتاتھا جس کی وجہ سے وہ اپنے کسی دوست کو گھر میں نہیں لے جا پاتے تھے۔ کرایہ کا ایک کمرہ ایسا تھا کہ خود والد، والدہ کے علاوہ تین بھائی، تین بہنیں 150 اسوائر فٹ کے کمرے میں کیسے دن گزرتا اور کیسے راتیں بسر ہوتی تھیں۔ لیکن انہوں نے تعلیم کا دامن نہیں چھوڑا۔ اپنی تعلیم مکمل کی اور مقدر کا سکندر ثابت ہوئے۔ آج ایسے کئی لوگوں کا اپنا ذاتی مکان ہے جن کا کل کرایے کا فقط ایک کمرہ ہوا کرتا تھا۔ یہ پیش رفت اور ترقی غریبوں نے یوں ہی سر نہیں کرلیے ہیں۔ انہوں نے تعلیم حاصل کرنے میں خونِ جگر جلایا ہے تب جا کر اس کا ثمر ملا ہے۔ غریب کل تھے ، آج بھی ہیں اور شاید ہمیشہ رہیں ، لیکن غریبوں نے اگر تعلیم کو اپنا رفیق بنا لیا اور دلجمعی و عزم بالجزم کے ساتھ کوشش کرتے رہے تو تعلیم اُن کا مقدر ضرور بدل دے گی۔
اس خواب کو ہر کوئی پورا کرنا چاہتا ہے کہ اس کی دیرینہ آرزو پوری ہوجائے ، وہ اپنا ذاتی مکان والا بن جائے۔ کوشش یہی کرنی چاہیے کہ گھر کی تعمیر یا خریداری حلال کمائی سے ہو۔۔حلال کی کمائی سے بنایا گیا گھر اسلام میں بڑی فضیلت اور اہمیت کا حامل ہوا کرتا ہے۔رسول اکرم ؓ نے فرمایا ہے
” جو شخص اپنے گھر والوں کے لیے محنت کرتا ہے، وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کے برابر ہے۔” لہٰذا حلال کمائی سے اپنا ذاتی گھر بنانا صرف دنیاوی ضرورت نہیں بلکہ نیکی اور ثواب کا کام ہے۔ ایسے گھر میں برکت ہی آتی ہے۔ اسی لیے مجھے کہنا پڑا ہے کہ
خدا کی بڑی ایک دولت ہے صاحب
گھر اپنا ہوجائے تو نعمت ہے صاحب
ہے یہ عزّتِ نفس کی اک علامت
دعا ہے رکھے سب کو مولا سلامت


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International