rki.news
تحریر: طارق محمود
میرج کنسلٹنٹ
ایکسپرٹ میرج بیورو
03132009181
ڈوبتے، لرزتے اور بالآخر تاریخ کے بوسیدہ اوراق میں دب جانے والے امریکی سامراج نے ہمارے ذہنوں میں ایسا کون سا خوف بٹھا دیا ہے جو ہمیں اندر سے کھا رہا ہے؟ وہ سامراج جو کبھی دنیا کی واحد طاقت سمجھا جاتا تھا، آج اپنی گرفت کھو رہا ہے۔
جب وہ یونی پولر طاقت تھا، تب بھی بہت سی قومیں اس کے دبدبے میں رہتے ہوئے مزاحمت کرتی رہیں اور اپنے وجود کو قائم رکھیں۔ آج تو وہ اکیلا بھی نہیں رہا۔ یورپ اور امریکہ مل کر بھی یوکرین کو بچا نہ سکے۔ تین برس سے نہتے فلسطینیوں کے ایک چھوٹے سے شہر غزہ کو فتح نہ کر سکے۔ آسمان سے بم برسا کر بے گناہ انسانوں کو مارنے کے باوجود اسرائیل اپنے لیے امن و تحفظ حاصل نہ کر سکا۔
اس سب کے باوجود دنیا کی بہت سی قومیں آج بھی آزادی کی سانس لے رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آزادی کے مقابلے میں کی جانے والی کوئی بھی مصلحت قوموں کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔ غلام قوموں کا ایمان لرز جاتا ہے، ان کا عقیدہ کمزور ہو جاتا ہے اور ان کی وحدت بکھر کر رہ جاتی ہے۔ ایسی قومیں تاریخ میں کبھی کوئی مقام نہیں بنا سکتیں۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ آزادی صرف ایک خواہش یا نعرہ نہیں، بلکہ ایک شعوری جدوجہد ہے جسے ایمان کا حصہ بنانا ضروری ہے۔ یہ انبیاء کرام اور ان کے ساتھیوں کا راستہ ہے۔ حضرت موسیٰؑ نے فرعون کی غلامی کو للکارا، حضرت ابراہیمؑ نے نمرود کے خلاف کھڑے ہوکر آزادی کا اعلان کیا، اور نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرامؓ نے ابو جہل، قیصر روم اور کسریٰ ایران جیسے جابروں کے خلاف جدوجہد کی۔
آج ہمیں بھی اسی اسوہ کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ خوف اور وہم کے حصار توڑ کر، شعور اور ایمان کی طاقت سے آزادی کی جدوجہد کرنی ہوگی۔ کیونکہ جو قومیں آزادی کی قیمت ادا کرنے کا حوصلہ رکھتی ہیں، وہی تاریخ میں زندہ رہتی ہیں۔
Leave a Reply