Today ePaper
Rahbar e Kisan International

خیبر پختونخوا میں مون سون بارشوں سے نقصانات

Articles , Snippets , / Sunday, June 29th, 2025

rki.news

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

خیبر پختونخوا کا ضلع سوات پاکستان کا ایک پہاڑی اور دریائی خطہ ہے جو قدرتی وسائل، جغرافیائی تنوع اور ثقافتی ورثے سے مالا مال ہے۔ لیکن اس کا جغرافیہ اسے بارہا قدرتی آفات کی زد میں لاتا رہا ہے، خصوصاً سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ، زلزلے اور بارشیں اس خطے کے لیے مستقل چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ 2010ء کے سیلاب ہوں یا 2022ء کی موسلا دھار بارشیں، خیبر پختونخوا کا انفراسٹرکچر، انتظامی صلاحیت اور عوامی تحفظ کا نظام بارہا امتحان میں آیا ہے۔

پروونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (PDMA) کی جاری کردہ ابتدائی رپورٹ کے مطابق حالیہ مون سون بارشوں کے نتیجے میں اب تک 11 افراد جاں بحق اور 6 زخمی ہو چکے ہیں۔ جاں بحق افراد میں 4 مرد، 3 خواتین، اور 4 بچے شامل ہیں۔ سوات سب سے زیادہ متاثرہ ضلع قرار پایا ہے، جہاں لینڈ سلائیڈنگ اور سیلابی ریلوں نے قیمتی انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ 56 گھروں کو بھی متاثر کیا ہے جن میں 6 مکمل تباہ جبکہ 50 جزوی طور پر متاثر ہوئے۔ انفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا ہے، خاص طور پر سڑکوں، پلوں اور بنیادی سہولیات کو۔ دریائے سوات میں خوازہ خیلہ کے مقام پر خطرناک حد تک پانی کی سطح بلند ہے۔ نوشہرہ اور چارسدہ کی ضلعی انتظامیہ کو ہائی الرٹ پر رکھا گیا ہے۔

سوات میں دریا کے کنارے تفریح کی غرض سے آنے والے سیاحوں کے لیے خوشی کا لمحہ قیامت میں بدل گیا۔ اچانک آنے والے سیلابی ریلے نے 16 سیاحوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جن میں سے 8 لاشیں نکالی جا چکی ہیں، 3 کو زندہ بچا لیا گیا ہے اور 5 تاحال لاپتہ ہیں۔ جاں بحق افراد میں ماں، دو بیٹیاں، بہن بھائی جیسے قریبی رشتے شامل ہیں، جو انسانی المیے کی شدت کو ظاہر کرتے ہیں۔ سیاحوں کا تعلق سیالکوٹ اور مردان سے تھا، جو سوات کو محفوظ تفریحی مقام سمجھ کر آئے تھے۔

گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کو اس سانحے کا براہ راست ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کے مطابق ایمرجنسی میں کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا گیا، سیاحوں کو پیشگی وارننگ نہیں دی گئی، محکمہ سیاحت، جو وزیر اعلیٰ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، اس سانحے کا اصل ذمہ دار ہے، دریا کے کنارے چارپائیاں بچھانے والے ہوٹل بھی ضلعی انتظامیہ اور سیاحت کے محکمے کی چشم پوشی کا نتیجہ تھے اور حکومت کی بے حسی اور بدانتظامی کو گورنر نے شدت سے تنقید کا نشانہ بنایا۔

یہاں یہ سوال اہم ہے کہ سیاحوں کو قدرتی خطرات سے آگاہ کرنا، متوقع بارشوں اور سیلاب کی پیشگی اطلاع دینا اور خطرناک مقامات پر ہوٹلنگ یا قیام کی ممانعت، کیا یہ حکومت یا انتظامیہ کی اولین ذمہ داری نہیں؟

ڈیزاسٹر مینجمنٹ نظام کی ازسرنو تشکیل کی ضرورت ہے، جو صرف رپورٹ سازی تک محدود نہ ہو بلکہ پیشگی انتباہ، بروقت ریسکیو، اور موثر بحالی کو یقینی بنائے۔ سیاحتی علاقوں میں مستقل وارننگ سسٹم، مقامی انتظامیہ کی تربیت، اور سیاحوں کو آگاہی کے لیے جدید ڈیجیٹل پلیٹ فارم (SMS، Apps) کا استعمال ناگزیر ہے۔ سیاحت اور مقامی حکومت کے محکموں میں کوآرڈینیشن کا شدید فقدان سامنے آیا ہے، جسے دور کیے بغیر کسی بھی اصلاح کی امید عبث ہے۔ دریاؤں کے کنارے غیرقانونی تعمیرات پر مکمل پابندی اور ریور سیکیورٹی زون کا قیام لازمی ہے۔

یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ حالیہ سانحہ محض قدرتی آفت ہی نہیں، بلکہ اس میں انتظامی ناکامی، حکومتی عدم توجہی، اور انسانی غفلت کا گہرا عمل دخل بھی ہے۔ خیبر پختونخوا کے عوام ہر سال موسمی تباہیوں کا سامنا کرتے ہیں، مگر ان سانحات سے سبق سیکھنے کا کوئی عمل نظر نہیں آتا۔ اگر احتساب، منصوبہ بندی اور حفاظتی اقدامات پر سنجیدگی سے توجہ نہ دی گئی تو ہر سال ہم ایسی ہی رپورٹیں پڑھتے اور لاشیں گنتے رہیں گے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International