rki.news
سہ پہر کے تین بجنے میں ابھی دیر تھی۔ بڑے بھیا شاید ہماری دلدہی کی خاطر گھر سے جلدی نکل آئے تھے۔ ہم بڑی بے چینی سے نظریں اِدھر اُدھر دوڑا رہے تھے کہ شاید اس کا جلوہ نظر آجائے جس کا بھیا کو بھی انتظار تھا۔ برابر کی گلی سے ایک دبلا پتلا ، گہری رنگت کا نوجوان شلوار قمیص پہنے تیز تیز قدموں ہماری طرف آتا دکھائی دیا۔ بھیا شاید اسی کے جلوے کے منتظر تھے۔ ہم نے دیکھا کہ ان کی آنکھیں اس شخص کو دیکھ کر چمکنے لگیں ۔ بظاہر اس میں اسی کوئی چیز نہیں تھی جو کسی بھی حوالے سے متاثر کن ہو۔ وہ بھیا کو پہچانتا تھا۔ بھیا کو سلام کرتا ہوا سیدھا لائبریری کے دروازے میں لگے تالے پر جھک گیا۔ دروازہ کھولتے ہی اس نوجوان نے کہیں سے ایک جھاڑو نکالی اور فرش کی صفائی میں مصروف ہوگیا۔ بھیا نے ہمارا ہاتھ پکڑ کر ہمیں اندر جانے روکے رکھا۔ تھوڑی دیر میں کچھ اور لوگ بھی آنا شروع ہوگئے۔ ہم بھیا کے ساتھ اندر داخل ہوگئے۔ دیوار پر نصب پرانے زمانے کا گھڑیال ٹن ٹن ٹن، تین بجا رہا تھا۔
لائبریری میں ہر طرف بڑی بڑی چمکتی دمکتی پالش شدہ الماریاں اور بک شیلف کتابوں رسالوں سے بھرے تھے۔ داخلی دروازے کے پاس بڑی سے میز دو رویہ کرسیوں کے ساتھ تھی۔ میز پر اخبارات اور رسائل قرینے سے رکھے تھے۔ سنا تھا کہ لائبریری کی کتابوں کا ذخیرہ خیرپور میرس کے نواب نے حیدر آباد دکن(انڈیا) کے کسی نواب سے مول لیا تھا۔
(وَاللَّـهُ أَعْلَم)۔ لائبریری تین بجے سہ پہر کھلتی اور سات بجے بند ہوجاتی تھی۔ ہم اس روز کافی پہلے سے آگئے تھے۔ مجھے تو اس نوجوان کی پابندیء وقت پر تعجب ہورہا تھا۔
بھیا ہمیں اندر آفس میں لے گئے۔ صاف ستھرے کپڑوں میں دبلے پتلے ایک صاحب کچھ لکھ رہے تھے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ بیگ صاحب ہیں، لائبریرین اور دوسرے غالبا ” ظہیر صاحب اسسٹنٹ لائبریرین تھے۔ بیگ صاحب خاموش طبیعت اور ظہیر صاحب تھوڑے سخت مزاج تھے۔
میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ جب بھیا نے بیگ صاحب سے میرے لیے لائبریری ممبر شپ کی بات کی۔ انہوں نے مجھے اس کا ممبر بنوادیا۔ بھیا ٹیوشن پڑھاتے تھے ممبر شپ کی فیس بھی انہی پیسوں میں سے دی ہوگی۔
لائبریری ٹھیک تین بجے کھلتی تھی۔
ہم اسکول کا تین کلومیٹر سے زیادہ فاصلہ طے کرکے گھر پہنچتے ، مارا مار کھانا کھاتے اور لائبریری کے دروازے کے سامنے کھل جا سم سم کا ورد کرتے رہتے۔
وہی بظاہر غیر اہم نظر آنے والا شخص وقت کا اتنا پابند ہوگا ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ مقررہ وقت پر وہ دروازے کا تالا کھول کر جھاڑو سنبھالتا، ہم کرسی سنبھالتے، لائبریری کلاک ٹن ٹن تین بجنے کا اعلان کرتا۔ ہم ایک نظر کلاک پر ڈال کر الماری سے اپنی کوئی پسندیدہ کتاب نکالتے، دو رویہ کھڑی الماریوں کے درمیان جگہ سنبھالتے اور کتاب کے اوراق میں گم ہوجاتے۔ لائبریری کی روشنیاں مدہم کیجاتیں تو پتہ چلتا کہ وقت ختم ہوگیا۔ لوگ ایک ایک کرکے اٹھنے لگتے ہم بھی کتاب الماری میں رکھ کر اٹھ جاتے۔ کئی گھنٹے ایک سی نشست کے بعد کرسی بھی ہماری جدائی برداشت کرنے کے لیے آمادہ نظر نہیں آتی۔ لائبریری بند ہونے سے پہلے ممبر شب کارڈ پر کسی ایک کتاب کا اندراج کرواکر گھر لے آتے۔ ہمارا یہ روز کا معمول تھا۔
ساتویں جماعت سے دسویں تک۔ ہم نے لائبریری میں موجود اردو کی ہر کتاب “چاٹ” ڈالی۔رتن ناتھ سر شار، سجاد حیدر یلدرم، قرات العین حیدر۔ علامہ راشد الخیری، عطیہ فیضی کے خطوط، ایم اسلم، اے آر خاتون، رضیہ بٹ، نادرہ خاتون، زبیدہ خاتون، عصمت چغتائی، عبداللہ حسین، منٹو، تیرتھ رام فیروز پوری کے تراجم، شکاری جم کاربٹ کے کارنامے۔ ارتھ اسٹنلیے گارڈنر۔ جیمس ہیڈلے چیز، مستنصر حسین تارڑ کے سفر نامے، قدیم و جدید شعراء کے دواوین۔
قلی قطب شاہ، ولی دکھنی، بہادر شاہ ظفر، میر تقی میر، سودا، ذوق، غالب، درد، انیس و دبیر کا رثائی کلام۔ چکبست، فانی، چرکیں کا دیوان، حسرت، اقبال، احمد ندیم قاسمی، فیض احمد فیض، پروفیسر شور علیگ وغیرہ۔۔
ساتھ ہی نقوش اور فنون کے ضخیم نمبر، افکار، اوراق، سیپ، اردو زبان، عصمت اور بنات وغیرہ۔
جب اردو ناول، افسانہ اور تراجم کا ذخیرہ ختم ہوگیا تو اردو میں مشکل مضامین کی کتابیں ہمارے سامنے تھیں۔ نفسیات اور فلسفہ کی کتب کے علاوہ جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن کی مرتب کردہ ” رسالہء کیمیا اور طبعیات۔ سائنسی اصطلاحات کا اردو ترجمہ۔ پڑھنے کا ایک جنون تھا جو تین سالوں بعد کالج میں پہنچ کر بھی ختم نہ ہوا۔ بہت کچھ سمجھ میں آیا اور بہت کچھ نہ سمجھ سکے ۔ دیمک کی طرح نہیں کہ چاٹ کر سب خاک کر ڈالا۔ آج جب ہم کچھ لکھنے بیٹھتے ہیں تو موزوں لفظ کے لیے تردد نہیں کرنا پڑتا۔ اکثر یہ بھی ہوا کہ ہم نے کسی جگہ کوئی لفظ استعمال کیا پھر صحتِ لفظی کے لیے لغات کی ورق گردانی کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ ہم نے درست لفظ کا انتخاب کیا ہے، یہ اسی مالکِ لوح و قلم کی عطا جس کے طفیل:
چاٹی خاک میں نے درِ شہرِ علم کی
اہلِ زباں کے بیچ فصاحت کے واسطے
(ف ن خ)
ہماری اور بڑے بھیا کی عمروں میں تقریبا” ساڑھے آٹھ سال کا فرق تھا۔ لیکن کتب بینی کے شوق نے یہ فرق رفتہ رفتہ ختم تو نہیں کیا کم ضرور کردیا۔ 1962 میں ہم نے میٹرک کیا بڑے بھیا اس وقت اپنی تعلیم مکمل کرچکے تھے۔ شاعری کا انہیں بھی شوق تھا بڑی آپا کی طرح۔ کالج کے زمانے میں چند غزلیں، نظمیں کہیں۔ اسلم بھائی (جسٹس علی اسلم جعفری مرحوم)، علی اوسط جعفری، اور کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر “ادبستان” کے نام سے ایک ادبی تنظیم بھی بنائی تھی۔
شعر و ادب کا ذوق و شوق تو میرے والد ناطق بدایونی کے ساتوں بچوں میں تھا لیکن باقاعدہ شاعری کا قرعہء فال خوبیء قسمت سے ہمارے ہی نام نکلا۔
حاصل کسی کسی کو ہوئی قدرتِ سخن
ذوقِ سخن وگرنہ برابر کا سب میں تھا
(ف ن خ)
ہم اپنی شاعری کے ابتدائی دور میں اماں کو اپنے شعر سناتے۔ کتابوں کی شراکت داری بڑے بھیا کے ساتھ تھی۔ ہر اچھی کتاب پڑھنے کے بعد خاموشی سے بڑے بھیا کی عدم موجودگی میں ان کے بستر پر رکھ دیا کرتے۔ بعد میں بڑے بھیا سے یہ تکلف بھی ختم ہوگیا۔ غزل نظم کہہ کر ان سے ضرور تذکرہ کرتے کبھی کبھی سنا بھی دیا کرتے۔ ابا سے اس بارے میں کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ شروع شروع میں اماں اور بڑے بھیا ہی کو ہمارے شاعر ہوجانے کا علم تھا۔
آج بھی ان دونوں کی کمی بڑی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ نئی غزل کہہ کر اور کسی اچھی کتاب کو پڑھ کر دل بڑا کرتا ہے کاش اماں زندہ ہوتیں اور بڑے بھیا ، اب نہ اماں حیات ہیں نہ بڑے بھیا:
” اک لمحے کو روشن تو ہُوا ہے وہ دریچہ
جس گھر کا دریچہ ہے وہی گھر نہیں ملتا “(ف ن خ) جاری ہے
Leave a Reply