تازہ ترین / Latest
  Sunday, December 22nd 2024
Today ePaper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

ادب پہلا قرینہ ہے

Articles , Snippets , / Wednesday, April 17th, 2024

علامہ اقبال کا کیا ہی دلربا اور پر تاثیر شعر ہے کہ
خموش اے دل، بھری محفل میں چلانا نہیں اچھا
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
مسز ریحان اپنی بہو کو لے کر شہر کی مایہ ناز گایناکولجسٹ پروفیسر امت الصبور کے پاس چیک اپ کے لیے پہنچی ہوی تھیں ان کی بہو حمل سے تھی اس کا آٹھواں مہینہ چل رہا تھا صبح اچھی بھلی اٹھی تھی ناشتہ کر کے اٹھتے وقت اسے اس شدت کا چکر آیا کہ وہ پشت کے بل گر پڑی تھی اور سر پہ اتنی شدید چوٹ آئی تھی کہ اس کے چکرا کے گرتے ہی اس کے سر کے پاس چھوٹی سی خون کی ایک ندی بن گءی تھی مسز ریحان نے بہو کو فوراً ہی شہر کے سب سے اچھے ہسپتال کی ایمر جنسی میں شفٹ کر دیا تھا جہاں ابتدائی علاج معالجے اور ٹیسٹس کے نمونے لے کر ڈاکٹرز نے مریضہ کو ماں کے پیٹ میں بچے کے حالات کی جانچ کے لیے اسے ماہر امراض نسواں کے پاز پاس بھیج دیا تھا. مگر یہاں مریضہ اور مسز ریحان پچھلے آدھے گھنٹے سے انتظار کی سولی پہ لٹکے ہوے تھے ریسیپشن پہ بیٹھی ہوی لڑکی نما عورت نک چڑھی، بدنما اور بد لحاظ تھی مسز ریحان اسے بار بار کہہ چکی تھیں کہ مریضہ کی حالت بہتر نہیں اسے جلد چیک کروا دیا جاے مگر ریسییپشنسٹ بڑی ہی پتھر دل اور ڈھیٹ تھی مسیحائی کا ایک گر بھی اس کی شخصیت میں نہ تھا پرائیویٹ ہسپتال جیسی کوی خوبی مسز ریحان کو شہر کے اس ٹاپ کلاس اور مہنگے ہسپتال میں ڈھونڈنے سے بھی نہ دکھای دیتی تھی. مریضہ کی آہ و پکار اور رونا دھونا بھی بے سود دکھائی دیتا تھا کیا اس ہسپتال کے سارے عملے ہی کو کوی مسئلہ تھا ہاں مسئلہ تو تھا نوٹ چھاپنے کے ان بڑے بڑے طب خانوں میں صرف اور صرف نوٹ کمانے کا فریضہ ہی تندہی اور جانفشانی سے نباہیا جاتا ہے مریض مرے یا جیے ان کی بلا سے. کہتے ہیں ناں کہ ڈاکٹر اگر محبت اور شفقت سے مریض کی بات ہی سن لے تو مریض کا آدھا مرض ٹھیک ہو جاتا ہے مگر نہ جی پروفیسروں اور دوسرے بڑے بڑے ڈاکٹرز کی گردن میں یہ لوہے کا سریا اس طرح سے اہنی جڑیں پکڑچکا ہے کہ وہ بہت بڑی عقل کل اور پہنچی ہوئی ہستیاں ہیں نہ انھیں بیمار ہونا ہے اور نہ ہی انہیں موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور وہ ساری عمر غریب عوام کا خون چوستے رہیں گے بیماریوں سے پیسے بٹورتے رہیں گے اور بس. ڈاکٹر صاحبان اور نرسنگ سٹاف دونوں کی ذمہ داری ہے مریضوں کو نیک نیتی اور انسانی ہمدردی کے تحت نہ صرف درست تشخیص کرنا بلکہ پوری ایمانداری سے ان کا علاج بھی کرنا اور اگر کوی غریب غربا رعایت کا تقاضا کرے یا اس کے پاس پیسے ہوں ہی ناں تو ڈاکٹر میں تو کم از کم اتنا حوصلہ تو ہونا ہی چاہیے کہ وہ اپنے مریض کا علاج اپنے پلے سے کروانے کی اہلیت ضرور رکھتا ہو کہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے دکھی انسانیت کے کام آ سکے بالکل علامہ اقبال کے شہر کی عملی تصویر
کہ خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں
بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا
جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا.
اور خدا کے بندوں سے پیار کے لیے محبت کا سہارا لینا پڑتا ہے، میٹھی زبان کا سہارا لینا پرتا ہے، شیرینی جیسے الفاظ کا تانا بانا بننا پڑتا ہےاور کبھی کبھی تو کسی کا دل رکھنے کے لیے سچ میں جھوٹ کا تڑکا لگانا بھی ضروری ہو جاتا ہے. اس مصالحت آمیزی سے مجھے سامعہ جی کے شوہر نامدار یاد آ گیے جو بوہڑی بازار میں کریانے کی دوکان کرتے تھے تھے تو شریف آدمی مگر انہیں عورتوں سے دوستی کی بیماری تھی اور وہ ہر عورت پہ لٹو ہو جاتے تھے بیوی بھی بلا کی شکی تھی روزانہ انھیں کہتی کھاو اپنی ماں کی قسم کہ آج کسی عورت سے عشق مٹکا تو نہیں کیا ناں اور وہ دھڑلے سے کہہ دیتے کھاتا ہوں قسم اور دل میں ہولے سے اللہ تعالیٰ سے معافی بھی مانگ لیتے کہ اللہ میاں معاف کر دینا اپنے گھر کو بچانے کے لیے مصلحتاً جھوٹ بول رہا ہوں کچھ لوگ کتنے بءبے اور بے ضرر ہوتے ہیں ناں.
ایک انٹرنیشنل سکول کے گیٹ پہ ایک بھولی بھالی ان پڑھ عورت اپنی بیٹی قدسیہ فاروقی کے O. Levelsکے امتحان کے لیے statement of entry لینے کے لیے ادھر سے ادھر دھکے کھاتی پھر رہی تھی. گارڈ نے کءی کالز کرنے کے بعد انہیں سکول کے بڑے گیٹ میں سے اندر داخل ہونے دیا تھا اندر وہ مسز نادیہ کے انتظار میں ابھی جا کر بیٹھی ہی تھیں کہ وایس پرنسپل کسی شیر کی مانند دھاڑتی اور غراتی ہوی اس عورت پہ برسنا شروع ہو گییں جن کی بیٹی گھر میں بہت تیز بخار میں جھلس رہی تھی اور اس کی رولنمبر سلپ لیتی ہوی ماں اینویں ہی ایک معمولی کام کے لیے وایس پرنسپل کے نازیبہ روءیے کا شکار ہو رہی تھیں. کہتے ہیں ناں کہ انسان ہے بڑا ہی ناشکرا کسی بھی حال میں خوش نہیں رہتا تو یہ بڑی بڑی سیٹوں پہ بڑے بڑے عہدوں پہ بیٹھے ہوے انتہائی بونے انسان کس برے طریقے سے ان عام انسانوں کے ساتھ بھیڑ بکریوں جیسا سلوک کرتے ہیں جن کے پیسوں پہ ان کے کاروبار چلتے ہیں کوی اچھی پرنسپل ہوتی تو ایک منٹ میں ہی قدسیہ statement of entry اس کے حوالے کر کے اس کی دعائیں سمیٹتی مگر رب جانے اس ناعاقبت اندیش عورت کو کیا سوجھی کہ اس نے نہ صرف اپنے لوییرسٹاف کو بیدردی سے ڈانٹا بلکہ قدسیہ کی جی بھر کے unsult بھی کر ڈالی. لو بھلا میں اکیلی کیسے ہر فلور پہ جا کے ایک ایک مسئلہ حل کروں آپ کو کم از کم تین گھنٹے انتظار کر نا پڑے گا پھر جا کے آپ کا مسئلہ حل ہو گا. کیا مسئلہ تھا مسءلہ کچھ بھی نہ تھا مسءلہ صرف یہ تھا کہ اپنی مل جانے والی عزت کا بے جا اور انے وا استعمال.
بات اب سکولوں اور ہسپتالوں سے نکل کر بازاروں اور اہیر رپورٹوں سے گھروں اور محلوں تک پہنچ چکی ہے بد تہذیبی اور بدتمیزی ہماری نسل کا وہ سب سے بھیانک مسئلہ یے جس نے ہمارے بزرگوں کا اولڈ ہومز اور عورتوں کو دارالامان کی راہ دکھا دی ہے اسے ہی کہتے ہیں کہ کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا خدا سے دعا ہے کہ وہ آپ کو اور ہمیں اپنی اپنی اوقات میں رہنے کی ہمت عطاء فرمائے آمین ثم آمین
ڈاکٹر پونم نورین
Drpunnamnaureen@gmail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International