Today ePaper
Rahbar e Kisan International

درباری

Articles , Snippets , / Tuesday, December 30th, 2025

rki.news

تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
ایک بوسیدہ، پرانی طرز تعمیر کے تقریباً کھنڈر ہوتے ہوئے شہر کے دل میں ایک بہت بڑا دروازہ تھا، جو ہمہ وقت کھلا رہتا تھا، لوگ بلا جھجھک، بلا خوف، بنا اجازت کے شہر دل کے دروازے پہ آتے، اپنی اپنی مشکلات اور مسائل کے مطابق ان گٹھریوں کو کھولتے، ان میں سے اپنے اپنے مسایل کے حل نکالتے، مسایل پلک جھپکتے میں قصہ پارینہ ہو جاتے اور لوگ ہنستے مسکراتے، شاداں اور فرحاں اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے. شہر دل کا دروازہ ایک امید تھی، نوید سحر تھی، ڈوبتے کو تنکے کا سہارا تھا, سچ پوچھیے تو موت سے پہلے کا نظارہ تھا اور موت سے پہلے کا نظارہ کیسا ہوتا ہے، کتنا جان لیوا اور جانگزیں ہوتا ہے اس کا ذکر صحیفوں اور الہامی کتابوں میں تو ملتا ہی ہے، دیکھنے والوں کی جان تو اس جان لینے کے عمل کو دیکھ کر ہی آدھی تو فنا ہو ہی جاتی ہے ، لیکن اسی شہر دل کے دروازے کے اندر ایک دربار تھا، جس کی چھت داءیروں کی شکل میں گول گول تھی، دیواریں منقش، پردے ریشمی سرسراتے ہوے، کھڑکیاں بے شمار مگر سب کھڑکیوں کے دروازے بند تھے، درمیان میں ایک تخت جس پہ مخملیں قالین بچھا ہوا تھا، تخت پہ بظاہر کوی بیٹھا ہوا دکھای نہ دیتا تھا مگر کوی تھا، بڑا ہی طاقت ور، پر جلال اور ہر کسی پہ حاوی، کاروبار حیات کے سارے دروازوں کی کنجیاں ہی اس کے پاس تھیں، وہاں ہر درباری کو
بس جی حضوری کرنی ہوتی تھی، جو درباری جتنی زیادہ جی حضوری کرتا اس کی من و کامناییں اسی حساب سے پوری کی جاتیں، بس ایک شرط تھی جس کی پاسداری ہر درباری پہ لازم وملزوم تھی، مانو ہر درباری ہی اندھا، گونگا اور بہرہ تھا، ہر طرح کے ظلم و ستم کے سامنے، ہر طرح کی بے ایمانی کےسا منے، ہر طرح کی بے یقینی کے سامنے، اسے صرف منہ پہ تالا لگا کر من و کامنا کو پورا کروانا ہوتا تھا اور پھر بس، ایک عرصے سے ضرورت کی بوری کا منہ اسی طریقے سے بھرا جا رہا تھا، لوگ شہر دل کے کھلے ہوے دروازے پر دستک دییے بنا اندر جاتے، اپنی اپنی مشکلات اور ضروریات کے مطابق لب کشائی کرتے، حاجات کی ٹرے بھرتے اور دھیمے دھیمے قدموں سے سر کو نیہواڑے شہر دل کے دروازے سے باہر نکل جاتے، یہ صدیوں سے ہوتا چلا آ رہا تھا، اچانک ایک دن ایک عجیب سی کہانی وقوع پذیر ہو گءی، ایک درمیانی عمر کی عورت جس کے ملگجے لباس اور الجھے ہووے بال اسے کافی ڈراونا، بد حال اور حسرت زدہ دکھا رہے تھے نے تخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے زور زور سے شاہ کی نا انصافیوں کے پول کھولنے شروع کر دییے، ہر کوی ہکا بکا عورت کے پاگل پن پہ دو دو حرف بھیجنے لگا، گویا اس دیار میں سچ بولنا اور شاہ کو اس کی اصل شکل دکھا نا کوی گناہ عظیم ہو، باوردی فوجی مخبوط الحواس مگر سچی اور بہادر خاتون کے دونوں ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال کر قید خانے کی تاریکیوں میں دور کہیں دور روپوش کر آے، درباری دوبارہ سے خوشامدی گیت گانے لگے، لوگ پھر سے اندھے، گونگے اور بہرے ہو گیے مگر دربار میں اب چلنے والی ہواییں اس مخبوط الحواس، محروم تمنا، سچ کی پجارن، سچیاری کی سسکیوں اور آہوں سے بوجھل ہوتی تھیں.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
Punnam.naureenl@icloud.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

© 2025
Rahbar International