Today ePaper
Rahbar e Kisan International

درد کا مرہم اے میرے چارہ گر کوئی تو ہو

Articles , Snippets , / Friday, August 29th, 2025

rki.news

عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیلاب کو نہ روکئے رستہ بنائیے
کس نے کہا تھا گھر لب دریا بنائیے
ہر سال سیلابی ریلے کے سرزمین پاکستان میں داخل ہوتے ہی عطا شاد کا یہ شعر زبان زدعام ہو جاتا ہے، اور سیلاب کے گزرتے ہی ذہنوں سے ویسے ہی محو ہو جاتا ہے، جیسے سیلاب کے دوران ہوئے نقصانات ہمارے ارباب اختیار کے ذہنوں سے محو ہو جاتے ہیں۔ ہماری یہ عادت اب کافی پختہ ہو چکی ہے، کہ ہر سال سیلاب کے آتے ہی پورے ملک میں ایک شور و غوغا شروع ہو جاتا ہے۔ ہر طرف نظر آتے نقصانات پر افسوس کے اظہاریہ کا سماں باندھ دیا جاتا ہے۔ نقصانات کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ انسانی جانوں کے نقصانات پر حکومتی بیانات داغے جاتے ہیں۔ خوب ہمدردی کے گولے برسا کر عوام کو یہ باور کروانے کی کوششیں کی جاتی ہیں، کہ اب ایسا واقعہ مستقبل میں اس پاک سر زمین پر دوبارہ کبھی رونما نہیں ہوگا۔ مرنے والوں کے لواحقین کے ساتھ کھڑے ہو کر خوب ساری سیلفیاں بنا کر یہ جتایا جاتا ہے، کہ مصیبت کی اس گھڑی میں سب ایکساتھ ہیں۔ جگہ جگہ امداد کے نام پر چندے کے بکس آویزاں ہو جاتے ہیں۔ کچھ تو سیلاب کی امداد کرنے والوں کے، اور کچھ دوسروں کے درد پر اپنی ذاتی امداد کا بندوبست کرنے والوں کے۔ جیسے آج تک حکومت اس سیلاب سے ہوئے نقصانات کو روکنے میں ناکام رہتی ہے، ویسے ہی اس امداد سے جمع ہوئی رقم کا بھی آڈٹ کرنے میں ناکام ہی رہی ہے۔ آج تک یہ آڈٹ رپورٹ عوام کے سامنے نہ آ سکی کی اس ہمدرد عوام نے آخر کتنے پیسے امداد کے لئے پھیلائی گئی ان جھولیوں میں ڈالے ہیں، اور اس رقم میں سے کتنی سیلاب زدگان کے اصل متاثرین تک پہنچ پائی ہے ۔
سیلاب کے بارے میں پیشگی اطلاعات کا نظام ہونے کے باوجود پانی کے ریلے کے انتظار میں وقت کا ضیاع، اس ترقی یافتہ دور میں تمام محکموں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ جب یہ بات روز روشن کی طرح عیاں تھی، اور پیشگی اطلاعات پہنچ چکی تھیں، کہ طوفانی بارشوں اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث متاثرہ علاقہ زیادہ ہو گا، تو لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کے لئے کیا اقدامات اٹھائے گئے تھے۔ کیوں سیلاب میں ڈوبتے علاقوں میں سیلاب کا پانی آنے کے بعد توجہ دینے کا ارادہ ظاہر کیا گیا؟ یہی سب امداد جو سیلاب متاثرین کے لئے اب اکھٹی کی جاری ہے، سیلاب آنے سے پہلے ان کے تحفظ کے نام پر کیوں اکٹھی کر کے ان کو بچانے کی تدابیر نہیں کی گئیں؟ کیوں ہم ہمیشہ حادثہ ہونے کا انتظار کرتے ہیں؟ تاکہ اس کے بعد حادثے کے شکار افراد کی مدد کی جا سکے؟ آخر حادثے سے پہلے ایسے اقدامات کیوں نہیں اٹھاتے کہ حادثہ ہی رونما نہ ہو۔
ملک میں اب بھی اس سنجیدگی کا فقدان ہی نظر آتا ہے، جس کی ضرورت عرصہ دراز سے محسوس کی جا رہی ہے۔ ہر سال سیلاب سے نبرد آزما قوم سے کئے گئے وعدے، سیلاب کے بعد فائلوں میں لپیٹ کر، الماریوں میں رکھ کر، تالے لگا دئیے جاتے ہیں۔ اگلے سال یہی وعدے، یہی دعوے انہی الماریوں کو کھول کر ، ان میں سے یہ فائلیں نکال کر، مٹی جھاڑ کر دوبارہ عوام کے زخموں پر لگا دئیے جاتے ہیں۔ وہ زخم جو ان وعدوں سے کبھی بھر نہیں سکتے، اور نہ ہی ان کی زندگیاں لوٹا سکتے ہیں جو لاشوں میں تبدیل ہو کر ، پانی پر تیرتی ہوئی خاموش زبان میں اعلان کر رہی ہوتی ہیں۔
ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
سیلاب کے راستوں میں بلند و بالا عمارات اور سوسائٹیاں بنا کر جیب بھرنے والے، ان بہتی لاشوں کو دیکھ کر کیا عبرت حاصل کرتے ہوں گے؟ بلکہ شائد امداد کے نام پر انہی عمارات و سوسائٹیوں سے کمائے ہوئے دھن میں سے چند سکے امداد کے نام پر دے کر اپنے ضمیر کو یہ کہہ کر مطمئن کر دیتے ہوں گے، کہ ہم نے ان بے آسرا لوگوں کے لئے بہت بڑی امداد کر دی ہے ۔ ان اداروں میں کام کرنے والوں کو شائد ضمیر مار کر چین کی نیند ضرور آتی ہو گی، جن کا کام ناجائز تجاوزات کو ختم کرنا ہے، مگر رشوت کے پیسوں سے سارا سال بند آنکھیں سیلاب میں ڈوبتے گھروں کو دیکھ کر بھی کہاں کھلتی ہوں گی۔
سارا سال پلاننگ کے نام پر ہوئی میٹنگز کا اگر آڈٹ کرایا جائے، تو ان میٹنگز کے نام پر ہوئے اخراجات ہوش اڑانے کے لئے کافی ہیں، مگر ان تمام میٹنگز کا حاصل عام آدمی کے لئے بے یارومددگار کسی امداد کی منتظر آنکھوں سے تاحال اوجھل ہے۔
اٹل حقیقت یہی ہے کہ ٹھوس اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ قدرتی آفات سے بچاؤ مشکل ضرور ہے، لیکن پیشگی اقدامات اور پلاننگ سے ان نقصانات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ عوام کی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔ وقت سے پہلے عوام کو محفوظ مقامات تک رسائی دی جا سکتی ہے۔ پانی کا راستہ بند کرنے کے بجائے، کھولنے کے اقدامات سے اس ہی پانی کو اپنی طاقت کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تخریب سے تعمیر کا پہلو نکالا جا سکتا ہے۔ تدبیر سے مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ عوام کی زندگیوں کو بہتر بنایا جا سکتا ہے، لیکن ان سب کے لئے اتحاد اور نیک نیتی کی اشد ضرورت ہے۔ ایک قوم بن کر سوچنے کی ضرورت ہے۔ تعصب کو اس پانی میں بہا کر ہمیشہ کے لئے ایک جان ہو کر سوچنے کی ضرورت ہے۔ سب کو اس نقصان کے درد کو اپنا درد محسوس کر کے ایسی پلاننگ کرنے کی ضرورت ہے کہ دوبارہ ایسا نقصان نہ ہو ۔
اگر اب بھی ہمیشہ کے جیسے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے کو ہی مسائل کا حل سمجھا جاتا رہا، تو پچھلے سال کی طرح اگلے سال بھی ایسے ہی مناظر دیکھنے کے لئے آنکھوں کو تیار رکھا جائے۔ وگرنہ قومیں تو وہ ہوتی ہیں جو نقصانات سے سبق سیکھ کر اس کے دوبارہ رونما نہ ہونے کے لئے انتھک محنت اور پلاننگ سے ایسے حادثات کو شکست فاش دے دیتی ہیں۔خواب غفلت سے جاگ جائیے، اور وہ اقدامات کیجئیے کہ اگلی بار یہ پانی تباہی نہیں خوشحالی کی نوید کیساتھ اس سرزمین پر بہہ رہا ہو۔
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہو گا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International