rki.news
تحریر: شازیہ عالم شازی
ہر سال 10 دسمبر کو اقوامِ متحدہ یومِ حقوقِ انسانی مناتی ہے وہی ادارہ جو انسانیت کے احترام، مساوات، تحفظ اور آزادی کا عالمی علمبردار کہلاتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس دن کے نعروں، قراردادوں اور پریس ریلیزوں کے شور میں دنیا کے بے شمار خطّے آج بھی ایسے زخم اٹھائے کھڑے ہیں جن پر اقوامِ متحدہ کی خاموشی اور بے بسی خود ایک بڑا سوال ہے۔
دنیا کی طاقتور ریاستیں آج بھی کمزور اقوام کے حقوق پر قدم رکھتے ہوئے آگے بڑھتی ہیں، اور اقوامِ متحدہ کے ایوان محض ’’تشویش‘‘ کا اظہار کرکے اپنے ضمیر کی تسلی کرلیتے ہیں۔ انسانی حقوق کے چارٹر میں درج ہر اصول، کاغذ پر تو مقدس ہے مگر عملی دنیا میں طاقت کے سامنے وہ ایک کمزور اور بے بس صحیفہ بن جاتا ہے۔
فلسطین اس کی سب سے بڑی مثال ہے نسل در نسل فلسطینی بچے ملبے میں دبے اپنے بستے اٹھاتے ہیں، عورتیں اپنے شہید بیٹوں کو دفن کرتی ہیں، بوڑھے زنجیر بستہ گھروں میں قید رہتے ہیں، جبکہ ایوانِ اقوامِ متحدہ میں قراردادیں پیش ہوتی ہیں، ووٹ ڈالے جاتے ہیں، مذمتی بیانات دیے جاتے ہیں مگر زمین پر ایک اینٹ بھی انصاف کے نام پر اپنی جگہ نہیں بدلتی۔ انسانی حقوق کی پامالی وہاں برسوں سے نہیں، دہائیوں سے جاری ہے، لیکن عالمی ادارے کی بے عملی تخت پر جمی ہوئی گرد کی طرح برقرار ہے اسی طرح کشمیر میں بھی حالات مختلف نہیں وہاں بھی کرفیو، نظر بندی، گمشدگیاں، شہری آزادیوں پر پابندیاں، اور نوجوانوں کی لاشوں پر خاموشی کی چادر تنی ہوئی ہے۔ عالمی طاقتیں معاشی مفادات کے اشاروں پر چلتی ہیں اور انسانی حقوق کی فکر صرف ان خطوں میں جاگتی ہے جہاں ان کی سیاسی ضرورت ہو۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں وہاں بھی موجود ہیں، مگر ان پر عمل درآمد کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔ ایسا لگتا ہے کہ کشمیر عالمی ضمیر کے اُس حصے میں رکھا گیا ہے جہاں سے روشنی کبھی نہیں گزرتی۔
افریقہ کے کئی ممالک، روہنگیا کی بربادی، سوڈان کی خانہ جنگی، شام کی بربادی، یوکرین کی آگ اور دنیا کے دیگر بے شمار خطّے اسی حقیقت کو دہرا رہے ہیں کہ عالمی انسانی حقوق کا تصور آج بھی سیاسی ترجیحات اور معاشی مفادات کے تابع ہے۔ طاقتور اقوام جب ظلم کرتی ہیں تو اقوامِ متحدہ کے قوانین خاموش ہوجاتے ہیں، اور جب کمزور کے خلاف کارروائی کرنا ہو تو یہی قوانین یکدم بیدار ہو جاتے ہیں۔
حقوقِ انسانی محض تقریروں کا عنوان نہیں، انسانیت کی بقا کا بنیادی اصول ہے۔ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ عالمی طاقتیں اس اصول کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتی ہیں کہیں یہ اصول جنگ کا جواز بن جاتے ہیں، کہیں خاموشی کی تاویل، اور کہیں انسانی مصائب کے خلاف صرف ’’افسوس‘‘ کا لفظ ادا کرکے عالمی ذمہ داری پوری کرلی جاتی ہے
10 دسمبر کے دن کی اصل روح یہ سوال اٹھاتی ہے کہ اگر انسانی حقوق واقعی سب کے لیے مساوی ہیں، تو پھر چارٹر پر دستخط کرنے والے ادارے خود اس کی پاسداری کیوں نہیں کرتے؟ کیوں فلسطین میں انسانیت روز قتل ہوتی ہے؟ کیوں کشمیر کی آزادی آج بھی سیاسی میزوں کی ایک فائل بنی ہوئی ہے؟ کیوں انسانی حقوق کا قانون طاقتور کے ہاتھ میں ایک آلہ بن جاتا ہے، اور کمزور کے لیے ایک خواب۔۔۔؟
یومِ حقوقِ انسانی کا واحد مقصد یہی ہونا چاہیے کہ اقوامِ متحدہ اپنی کمزوریوں، تضادات اور محدود کردار کا جائزہ لے۔ ورنہ دنیا ہر 10 دسمبر کو محض ایک رسمی دن مناتی رہے گی، جبکہ انسانیت ملبوں میں اور آنکھوں کی نمی میں اپنا حق تلاش کرتی رہے گی
Leave a Reply