rki.news
رپورٹ: ریاض شاہدؔ، بحرین
یہ حقیقت ہے کہ ادب معاشرے کی تہذیب و ترقی کے لیے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ وہ زندگی اور معاشرے کو ساکت و جامد نہیں ہونے دیتا، خود متحرک رہتا ہے اور افراد میں تحرک پیدا کرتا ہے۔ اگر ہم دیکھیں تو قدیم یونانی، مصری، اطالوی، فرانسیسی اور عرب معاشروں میں بھی یہ عمل ہمیشہ سے جاری رہا ہے۔ بعینہٖ ہمارے یہاں اردو ادب اور قومی زبانوں میں بھی وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ ادیبوں اور شاعروں نے گہرے اثرات مرتب کیے، جنہیں ہم نے بعد ازاں تحریکوں کا نام دیا۔
اسی ادب کی روایت کو بحرین میں زندہ رکھنے کا اعزاز “اردو مرکز بحرین” کو حاصل ہے، جس نے حال ہی میں بحرین کے معروف شاعر اور باکمال شخصیت جناب رخسار ناظم آبادی کی پہلی برسی کے موقع پر ایک دعائیہ و شعری نشست کا اہتمام پاکستان کلب بحرین میں کیا۔ اس پُراثر اور باوقار تقریب کی صدارت معروف ادبی شخصیت محترم احمد عادل نے فرمائی۔
اور مہمانِ خصوصی کی نشست پر جناب رخسار ناظم آبادی کے فرزندِ ارجمند جناب وقار صاحب تشریف فرما ہوئےاور مہمانِ اعزاز کی نشست پر جناب عزیز ہاشمی صاحب رونق افروز ہوئے
نشست کا آغاز خرم اقبال عباسی نے نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے کیا۔ انہوں نے تلاوتِ کلامِ پاک کی سعادت حاصل کی، جس سے محفل کا ماحول روحانیت سے بھر گیا۔
اس کے بعد محترم شیراز احمد نے حضرت پیر سید نصیر الدین نصیر شاہ گیلانی رحمتہ اللہ علیہ کا ایک نہایت ہی دلسوز اور پُراثر کلام پیش کیا، جسے سامعین نے نہایت توجہ اور عقیدت کے ساتھ سنا اور دل سے سراہا۔
تقریب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ پہلے حصے میں جناب رخسار ناظم آبادی کی شخصیت، فن اور خدمات پر گفتگو کی گئی۔ اس حصے میں محترم احمد عادل، محترم مجتبیٰ برلاس اور اردو مرکز بحرین کے بانی و سرپرست جناب خرم اقبال عباسی نے مرحوم کے فن، اندازِ فکر اور ادبی خدمات پر روشنی ڈالی۔
تقریب کے دوسرے حصے میں بحرین کے شعراء کرام محترم احمد عادل، محترم ریاض شاہد، محترم مختار عدیل، محترم سعید سعدی ،محترم اسد اقبال اور محترم اویس رسول
نے اپنے کلام کے ذریعے جناب رخسار ناظم آبادی کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ منتخب اشعار قارئین کی نذر ہیں:
احمد عادل
ثنا اکثر لبوں پر تھی خدا کو یاد کرتا تھا
فقط سجدوں سے اپنی خلوتیں آباد کرتاتھا
ملی کعبہ کے اندر جوسعادت اس کو سجدوں کی
انہیں سجدوں کے تصور سے وہ دل کو شاد کرتا تھا
———————
ریاض شاہد
یہ کون اٹھ کر گیا ہے بزمِ ادب سے
کمی سی ہے سخن کی روشنی میں
نظر آتا نہیں ہے دائیں بائیں
ستارہ تھا جو ہر محفل جمی کا
—————–
مختار عدیل
ہر گلی ہر موڑ پر بیٹھا ہوا
مفلسی میں آدمی سستا ہوا
خواہشوں کی خاک چہرے پر ملے
جا رہا ہے ہر کوئی روتا ہوا
——————–
سعید سعدی
وہ محبت عام کرتا مسکراتا آدمی
مخلصی کے ہر طرف دریا بہاتا آدمی
کیا خبر سعدی خدا سے کیا صلہ اس کو ملے
صابر و شاکر بہت تھا گڑگڑاتا آدمی
————-
اسد اقبال
ابتدا میں وزن سیکھا محترم رخسار سے
اور حُسنِ شعر بابا قیس کے افکار سے
خوب کی صحرا نوردی انتہائے شوق میں
ہم نے اُلفت ہی نہیں رکھّی درو دیوار سے
—————–
اویس رسولؔ
چھپے ہیں بھید کتنے تیرگی میں
ہیں کتنے راز پنہاں خامشی میں
حصولِ لمحہ فرصت کی خاطر
الجھ کے رہ گیا ہوں زندگی میں
Leave a Reply