دعویٰ عشق کچھ زیادہ ہے
تو طبیعت کا بہت سادہ ہے
دعویٰ عشق بھی زیادہ ہے
دل سے بھی دل کی کم ہی بنتی ہے
اور چہرے پہ بھی لبادہ ہے
ہمُ تو اتنا ہیُ لٹا سکتے تھے
آپ کا آگے کیا اراد ہے
دنیا جہاں میں جس گلی،کوچے،گاؤں،قصبے،شہریا ملک میں انسانی وجود ہو گا،وہ اگر محبت کی شیرینی سے تر بتر ہو گا تو اس گلی،اس کوچے،اس گاؤں،اس قصبے،اس شہر،اس ملک،اس براعظم میں زندگی اپنے پورے جوبن،اپنے پورے قد،اپنے پورے استحقاق اور اپنے مکمل غرور کے ساتھ زندگی اور زندگی کے دیگر لوازمات سے لطف اندوز بھی ہوتی ہو گی اور زندگی کے مزے بھی لیتی ہو گی۔کیا ہے زندگی اور کیا ہے زندگی کی منزل،لوگ کیوں اپنی محرومیوں کی بکل اوڑھ کے بھی مسکراتے ہیں،خود بھی ہنستے ہیں اور دوسروں کو بھی ہنساتے ہیں۔اور غور فرمائے گا جن کے گھر میں ایک پیڑے کا آٹا بھی نہیں ہوتا وہ محفل میں اپنے خوان کی داستان کا یوں نقشہ بیان کرتے ہیں کہ بڑے بڑوں کے منہ میں پانی آ جاتا ہے اور نیت یوں خراب ہو تیُ ہے کہ محفل برخاست ہوتے ہی کوی پھجے کے پاے کھانے کو لپکتا ہے تو کوئ بشیر دارالا ماہی کی تلی ہوئی مصالحہ دار مچھلی ڈھونڈنے چل پڑتا ہے اور وہ جو بھوکے پیٹ پانی پی کر رات کو عشا پڑھ کر صبر کی چادر اوڑھ کر سو جاتا ہے اس کا اجر اللہ پاک کے پاس ہوتا ہےاور اس اجر کے بارے میں ہر حساب کتاب سے اللہ پاک ہی واقف ہے اور بے شک رب کا ہاتھ کھلا اور بے تحاشا دینے والا ہے۔
محبت کے راگ الاپے جاتے رہیں گے،چھتوں،چوباروں،بازاروں اور محفلوں میں سر عام یا ڈھکے چھپے انداز میں (مجھے تم سے بے پناہ محبت ہے)کا مدھر نغمہ بنا کسی تعطل اور تاخیر کے دوہرایا جاتا رہے گا،عورت کا حسن مرد کو I love you کی گردان دوہرانے پہُ مجبور کرتا رہے گا۔صدیوں سے ایسا ہوتا آیا ہے اور روز آخرت تک ایسا ہوتا رہے گا۔دنیا کے تمام انسانوں کی ظاہری بناوٹ کے ساتھ ساتھ احساسات ،خیالات،جذبات اور خواہشات کا پنڈورا باکس بالکل ایک ہی جیسا ہے
سارے ایک جیسے تھے
دنیا کے سارے ہی لوگ
بادشاہ یا گدا
سوچ کےُلبادے میں
خواہش اور ارادے میں
خوف کے طلاطم میں
سوگ میں ،ماتم میں
خوشیوں کے میلے میں
بے بسی کے حیلے میں
ایک سے نقوش تھے
ہڈی ماس ایک سے
سرخ رنگ خون کا
سارے ایک جیسے تھے
تو جب اس بات کا فیصلہ ہو گیا کہ ایک آدم اور ایک حوا سے معرض وجود میں آنے والےپیلے؟گورے اور کالے بنیادی طور پر ایک جیسے ہی ہیں تو یہُ حقیقت ماننے میں بھی کوی عار نہیں ہونا چاہئے کہ ہماری ضروریات بھی ایک جیسی ہی ہیں ہمیں زندہ رہنے کے لیے گھرکی ضرورت ہوتی ہے ہمیں زندہ رہنے کےُلیے خوراک کی ضرورت ہوتی ہے،اپنے برہنہ تن کو چھپانے کے لئے لباس کی ضرورت ہوتی ہے اور پہاڑ جیسی زندگی کو امن،سکون اور پیار سے گزارنے کےُلیے کسی اچھے ہمسفر کا سہارا درکار ہوتا ہے۔
شا دی ایک معاہدہ ہے جسے دو افراد اپنے مستقبل اور خوشحالی کے لیے اپنے مکمل حوش و حواس میں دستخط کرتے ہیں شادی کا مطلب تو خوشی ہے اور شادی ایک ایسا لڈو ہے جسے کھانےوالا بھی پچھتاوے اور نہ کھانے والا بھی۔خیر شادی بھلے ارینج ہو یا محبت کی اگر شادی کرنے والےذہنی بلوغت اور ہوشمندی کا مظاہرہ کریں تو شادی کے اس پل صراط سے ہنستے مسکراتے بھی گزرا جا سکتا ہے اور اگر شادی شدہ جوڑے کا کوئ بھی رفیق ذرا سی کوتاہی کا مرتکب ہو جاے تو شادی شدہ زندگی کا دیوالیہ ایک پل میں ہی نکل جاتا ہے اور انسان کی دوستی چونکہ شیطان سے زیادہ رہی ہے تو وہ شیطان کےُبہکاوے میں بھی زیادہ ہی آجاتا ہے انسان بنیادی طور پہ اتنا تنہا اور محبت کا اتنا پیاسا ہے کہ اسے پل پل محبت ہونے کا روگ بھی بہت لاحق ہے۔
شیخ افراسیاب کی شادی چھبیس سال کی عمر میں ایک خوبصورت،ماڈسکوڈ ائئر ہوسٹس سے ہو چکی تھی تین عدد بچے بھی تھے ،بظاہر ایک ہنستا بستا گھرانہ تھا مگر مسٹر افراسیاب اپنی بیوی سے بے پناہ محبت کرنے کے باوجود ہر پری چہرہ خاتون پہ بری طرح سےفریفتہ ہونے کی لت میں مبتلا تھے اور ان کئ اس عادت بد کی وجہ سے ان کی شادی شدہ زندگی بار بار آزمائشوں اور لڑائی جھگڑوں کی لپیٹ میں آ جاتی تھی سفینہ ایک تیس سالہ عورت تھی اس کی طبیعت کی تیزی اور تیکھے پن کی وجہ سے بالآ خر اس نے شادی نامی عذاب سے کنارہ کر کے بقیہ زندگی فلاحی کاموں کے لیے وقف کر دی۔
ام لیلیٰ ایک مشنری سکول میں پرنسپل تھیں دو بچوں کی ماں تھیں ایک قابل سرکاری افسر کی زوجہ تھیں،عزت،دولت،شہرت ہر شے ان کے پاس وافر تھی ان کا صبیح چہرہ عمر پچھلے پہر بھی انتہای خوبصورت تھااپنےہی کالج کے سالانہ مشاعرےمئں ایک بدنام زمانہ شاعر کی مد ح سرای کی اتنی اسیر ہوئی کہ چٹے جھاڑے کے ساتھ اپنے شوہر سے خلع لے کر اس بھونرا صفت شاعر سے نکاح کر کے خود ہی اپنے گوڈی گٹوں میں بیٹھ گیں اور جب حقیقت حال ان پہ آشکارا ہوتی تو اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھیں اور شہر کی۔ سڑکوں پہ ایک وقت کی روٹی کے لیے ہاتھ پھیلانے پہ مجبور ہو گئئںُ۔
محبت کی دیوی ہر کس و ناکس پہ مہربان ہوتی رہے گی مگر مردوں کی محبت ایک طرف عورت کو محبت کے کھیلان میں پاؤں رکھنے سے پہلے بہت کچھ سوچنا چاہئے ۔
دعویٰ عشق بھی زیادہ ہے
اور چہرے پہ بھی لبادہ ہے
ڈاکٹر پونم نورین گوندل
Leave a Reply