Today ePaper
Rahbar e Kisan International

دفتری سہولیات کا ناجائز استعمال

Articles , Snippets , / Sunday, February 16th, 2025

عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دورِ خلافت ہے ، ایک صحابی رضی اللہ عنہ شام کے وقت آپ رضی اللہ عنہ سے ملنے آئے دیکھا آپ رضی اللہ عنہ کسی کام میں مصروف ہیں ، اُن صحابی کو دیکھا تو آنے کا سبب دریافت کیا ۔ انہوں نے جب فرمایا کہ ذاتی کام سے حاضر ہوا ہوں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جلتا چراغ بجھا کر دوسرا چراغ جلا لیا اور گفتگو کرنے لگے ۔ دوران گفتگو صحابی رضی اللہ عنہ نے پوچھا یا امیر المومنین رضی اللہ عنہ کیا وجہ ہوئی کہ آپ نے جلتا چراغ بجھا کر دوسرا چراغ جلا لیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ اُس چراغ میں بیت المال کے پیسوں سے ڈالا تیل جل رہا تھا جو صرف کارِ سرکار کے لئے دیا جاتا ہے ، اب آپ سے گفتگو کارِ سرکار نہیں ذاتی ہے اس لئے جلتا چراغ بجھا کر دوسرا چراغ جلا لیا ، جس میں ذاتی پیسوں سے تیل جلتا ہے کہ اگر اُس چراغ کو جلتا رہنے دیتا تو یہ بد دیانتی ہوتی اور یہ ایک گناہ ہے جس کی روز قیامت پکڑ سے ڈر لگتا ہے ۔ ہم سب نے یہ واقعہ بار ہا سنا یا پڑھا ضرور ہے ۔ ہم سب نے اس واقعہ کو سن کر خوب واہ واہ بھی کی ہو گی ۔ یہ صرف ایک واقعہ ہے جبکہ مسلمانوں کی تاریخ ان واقعات سے بھری پڑی ہے ، وہ خلفائے راشدین کا دور ہو یا پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز کا دور حکومت ہو ، ایسے سنہری واقعات سے تاریخ کے صفحات روشن ہیں ۔ اب آتے ہیں دورِ جدید کی طرف ، اپنے ارد گرد نظر دوڑائیے اور اگر آپ سرکاری یا پرائیویٹ ملازم ہیں تو اپنے گریبان میں جھانکئیے کیا یہ واقعات صرف واہ واہ کرنے کے لئے ہیں یا ان کی تقلید بھی ضروری ہے ؟ کیا ہمارے دفاتر میں سرکار کی طرف سے دی گئی سہولیات کا فائدہ صرف کارِ سرکار کے لئے ہی اٹھایا جاتا ہے یا اس کو اپنا حق سمجھ کر نہ صرف خود بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے ، بلکہ جہاں جہاں ضرورت محسوس ہو اُس سے گھر ، رشتہ داروں اور دوستوں سب کو استفادہ کروایا جاتا ہے ۔ دفاتر میں دی گئی اسٹیشنری کا یوں بے دریغ استعمال ہوتا ہے جیسے اُس کی خریداری پر انتظامیہ کا پیسہ نہیں لگتا ۔ دفاتر میں بجلی کا بے دریغ استعمال ، دیگر سہولیات کا استعمال ، اے سی، ہیٹر ، گاڑیوں وغیرہ کا استعمال یوں کیا جاتا ہے جیسے یہ سارا پیسہ اخراجات کے زمرے میں نہ آ رہا ہو ۔ یہ وہ پیسہ ہے جو عوام پر ٹیکس لگا کر وصول کیا جاتا ہے ، یا پھر آئی ایم ایف کی ہر جائز و ناجائز شرائط مان کر عوام پر اضافی بوجھ ڈال کر جمع کیا جاتا ہے ، یعنی یہ وہ پیسہ ہے جو بیت المال کے ذریعے ، ان سب سہولیات کو خریدنے کا موجب بنتا ہے ، اب بھی کیا صرف واہ واہ کیجئیے گا واقعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر واقعات پر ؟ ۔ جب ہم ایک اسلامی ملک کے دعویدار ہیں تو ہمارا طرزِ زندگی بھی اسلامی اصولوں کے عین مطابق ہونا چاہئیے ۔ ہم ہر معاملے میں تو فتوٰی لیتے ہیں، کیا ہم نے اس بارے میں جاننے کی کوشش کی ہے کہ اس طرزِ عمل پر اسلام کیا کہتا ہے ؟ ذرا یہ فتوٰی ملاحظہ فرمائیں ۔ ” ہماری معلومات کے مطابق حکومت کی طرف سے ملنے والی سہولیات خصوصا گاڑی خاص ضابطے کے تحت دی جاتی ہے ، ہر ایک ملازم کو بھی نہیں دی جاتی ، چنانچہ ملازمت کے ساتھ منسلکہ تمام مراعات ضوابط وعدے کے حکم میں ہیں ، اسی طرح حکومت کی طرف سے ملنے والی تمام مراعات امانت ہے ، لہذا سائل متعلقہ افراد اور شعبہ سے ضابطہ معلوم کرلے اور اسی کے مطابق گاڑی کا استعمال جائز ہوگا اور خلاف ورزی وعدہ خلافی اور خیانت شمار ہوگی ” ۔
تو اب ضابطہ یہ ہوتا ہے کہ سرکاری و غیر سرکاری دفاتر میں دی گئی تمام اسٹیشنری اس لئے دی جاتی ہے کہ دفتر کا کام سہولت سے کیا جا سکے ، اب اگر اس اسٹیشنری کو ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے تو یہ خیانت ہے ۔ ہم میں سے کتنے روز اس خیانت کا ارتکاب کر رہے ہیں ؟ ۔ یہ گاڑی دفتری استعمال کے لئے ملتی ہے جو صرف اِسی مقصد کے لئے استعمال کی جا سکتی ہے ۔ اب سارا گھر اس پر عیاشی کرے تو وہ امانت میں خیانت ہے ۔ اندازہ کیجئے ہم کتنے امین رہ گئے ہیں ؟ ۔ یہ صرف سرکاری ملازمین کے لئے نہیں ہے پرائیویٹ ادارے بھی ملازمین کو جو سہولت دیتے ہیں اس پر بھی قوائد و ضوابط لاگو ہوتے ہیں جس کا بے دریغ استعمال خیانت ہی ہے اور اس پر ایک مستند حدیث کیا کہتی ہے ۔ ترجمہ:”حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : بہت کم ایسا ہوتا کہ نبی کریم ﷺ ہم سے بیان کرتے اور یہ نہ کہتے ہوں کہ جس میں امانت داری نہیں اس میں ایمان نہیں اور جس شخص میں معاہدہ کی پابندی نہیں اس میں دین نہیں “۔ اب ہم اگر گریبان میں جھانکیں تو یہ جملہ ضرور لکھا نظر آئے گا ” تم مسلمان ہو یہ رمز مسلمانی ہے “۔
کیا وجہ ہے کہ ہم سب یہ ادراک رکھتے ہوئے بھی ان سب باتوں سے صرف نظر کر رہے ہیں ؟ ہم اس کو خیانت سمجھنے سے منکر ہو گئے ہیں ، مثالیں دیتے ہیں مگر عمل سے بے زار ہیں ، معاشرے میں بگاڑ کا رونا روتے ہیں مگر اصلاح سے انکاری ہیں ، جانتے بوجھتے خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں لیکن اس بات کا ذرا سا بھی خوف نہیں کہ روزِ قیامت ایک ایک عمل کا حساب دینا ہو گا اور یہ عمل تو روز مرہ کے معمولات میں کیا جا رہا ہے اس کا جواب دینا کیسے ممکن ہو گا ؟ ۔ سوچنے کی بات ہے کہ کیا یہ خیانت جو ہم کر رہے ہیں ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے چراغ میں جلنے والے تیل سے بھی کم قیمت ہے ؟ ، یا ہم اتنے نڈر ہو چکے ہیں کہ سمجھتے ہیں کہ روزِ محشر اس کا حساب آسانی سے دے کر جنت کی راہ نکل جائیں گے ۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International