rki.news
نوید صادق کی شاعری کو سمجھنے کے لیے ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب کی یہ لائنیں کافی ہیں جس میں نوید صادق کے شعری رجحان کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ خورشید رضوی صاحب نے “ دورانیہ” کے فلیپ پر لکھا ہے کہ نوید صادق نے غزل بھی کہی ہے اور نظم بھی اور دونوں اصناف کے درمیانی برزخ کو وہ خوب سمجھتا ہے۔ چناں چہ ایک طرف کی موج کو دوسری طرف آمیز نہیں ہونے دیتا۔
یو ای ٹی لاہور میں نوید صادق ہمارے سینئر تھے۔میرا ان سے تعلق آخری دو سالوں میں قائم ہوا۔ یہ ۱۹۹۶ اور ۱۹۹۷ کی بات ہے۔اس دور میں ان کا رجحان نظم اور تنقید کی طرف زیادہ تھا۔غزلیں بھی بہت پختہ انداز میں کہتے تھے۔اور ہم دوست ان سے اپنی شاعری کے حوالے سے مشورہ بھی کر لیتے تھے، اسی زمانے سے وہ استاد شاعر مشہور تھے۔ان کی تخلیقات جب کسی رسالے میں شائع ہوتی تھیں تو جن لوگوں سے ان کی بالمشافہ ملاقات نہیں تھی وہ انہیں بہت سینئر شاعر سمجھتے تھے ۔ یہ ان کے فن کی پختگی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ان کے اس دور کےتخلیقی عمل میں مجھے ان کی ہمرہی نصیب رہی ۔ تاہم میرا گیان تھا کہ وہ نظم میں بالخصوص انفرادیت قائم کریں گے اور تنقید کے میدان میں بھی اپنی طرف متوجہ کرنے کےساتھ ساتھ اپنے ہم عصروں کو متاثر بھی کریں گے۔اب چونکہ ربع صدی سے زیادہ عرصہ گذر چکا ہے اس دوران ان کی غزل، نظم اور تنقید کی الگ الگ کتب شائع ہو چکی ہیں جنہیں ادبی حلقوں میں بے حد پذیرائی ملی ہے۔صد شکر یہ پذیرائی کسی ایک تخلیقی فن پارے یا کسی ایک صنف سخن میں کمالِ فن حاصل کرنے کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے برتے ہوئے ہر میدانِ سخن میں ان کے کارہائے نمایاں اور فنی و تخلیقی امتیاز کی بدولت ہے۔ نجیب احمد نے خوب کہا ہے ؛
“ میٹھی اور دلوں کو چھو لینے والی سطروں کے خالق نے آسمان کی طرف اپنا یہ سفر زینہ بہ زینہ طے کیا ہے جب کہ ایک ہی جست میں بلندی کو چھونے کی کوشش کرنے والے منہ کے بل زمین پر گر جایا کرتے ہیں۔””
دورانیہ کی نظمیں عہدِ جدید کے متنوع مسائل سے نبرد آزما ایک جنوئن تخلیق گار کے جذبات کی آئنہ دار ہیں جہاں وہ ایک طرف معاشرے میں انسانی اقدار کے عنقا ہو جانے پر افسردہ اور نوحہ کناں ہے تو دوسری طرف اندر کی بڑھتی ہوئی تنہائی سے نبرد آزما ہے۔ہمارے اردگرد پھیلا ہوا اضطراب، بے یقینی، بڑھتی ہوئی محرومیاں ،سسکتی انسانیت کے ہونٹوں پر بلکتی ہوئی پیاس، آبا و اجداد کی میراث کھو جانے کاغم، آرزؤں کی تکمیل کا ادھورا پن، ہنستے بستے شہروں کی معدوم ہوتی ہوئی تہذیبوں کا نوحہ، زندگی اور اس سے جڑے بے شمار موضاعات کا اک جہان ہے جو دورانیہ کی نظموں میں مرتکز دکھائی دیتا ہے۔غلام حسین ساجد اور حامد یزدانی نے موضاعات کے حوالے سے نظموں کے اقتباسات پیش کیے ہیں جو نوید صادق کے فکری ارتقا کے آئینہ دار ہیں۔ ڈاکٹر آصف علی قیصر کے مطابق بھی نویدصادق نے بڑی دور بینی کے ساتھ اپنے ارد گرد کے منتشر ماحول کے اضطراب کی لفظی اور معنوی تصویر کشی کی ہے۔ آخر میں اتنا کہوں گا کہ نوید صادق نے جدید طرزِ احساس سے بھرپور ایسی نظمیں تخلیق کی ہیں جو داخلی و خارجی احساسات اور ہمارے ارگرد پھیلے لا محدود متنوع مسائل کی آئنہ دار ہیں اور تخلیقی اعتبار سے جدید اردو شاعری میں اہم اضافہ ہیں
Leave a Reply