Today ePaper
Rahbar e Kisan International

دوسری، تیسری یا چوتھی عورت

Articles , Snippets , / Sunday, February 16th, 2025

عورتیں حسین ہوتی ہیں
عورتیں خوش شکل ہوتی ہیں
عورتیں خوش ادا ہوتی ہیں
عورتیں خوش آواز ہوتی ہیں
عورتیں خوش لباس ہوتی ہیں
عورتیں خوش مزاج ہوتی ہیں
عورتیں بڑی بہادر ہوتی ہیں ان کی بہادری کا ایک بہت بڑا ثبوت تو یہ ہے کہ وہ تخلیق کے مشکل ترین مرحلے سے تن تنہا گزر کے اپنے شوہر اور خاندان کے لیے اولاد جیسی نعمت گراں مایہ اور خوشی کو مہیا کرنے کا سبب بنتی ہیں، اور پھر ان کی بہادری اس وقت بھی پوری شد و مد کے ساتھ عیاں ہوتی ہے، جب ان کے شوہر ان سے بے وفائی کے مرتکب ہوتے ہیں اور وہ صبر شکر کر کے کبھی اپنے بچوں کے لیے اور کبھی اپنے والدین کا خیال کر کے اتنے بڑے عذاب کو چپ چاپ سہہ جاتی ہیں، شاید ہی کسی عورت نے بیوفائی پہ کوی خون خرابہ کیا ہو، غیرت کے نام پہ قتل ہونے والا مظلوم ترین جاندار صرف اور صرف عورت ہی ہے کبھی کسی بھینس، گاے، بکری، مورنی یا کویل کو کم از کم غیرت کے نام پہ تو قتل نہیں کیا گیا ہو گا اور ان خواتین کی تعداد بھی آٹے میں نمک کے برابر ہی ہو گی جنہوں نے بے وفائی جیسے قبیح جرم پہ اپنے شوہر کو قتل کیا ہو یا کوی بڑا جسمانی نقصان پہنچایا ہے ہاں یورپی ممالک میں اگر کوئی شادی شدہ جوڑا ایک دوسرے سے قانونی علیحدگی کا خواہاں ہوتا ہے تو اس کے اپنے قانون اور ضابطے ہیں جو اپنی پیچیدگیوں اور قباحتوں کی بنا پہ یورپ کے ناکام اور روتے دھوتے خاندانی نظام کے بھر پور عکاس ہیں. یعنی وہ عقلمند لوگ معاشی اور ساینسی ترقی میں اتنے آگے بڑھ گیے کہ انسانیت شرما گءی، خیر بات ہو رہی تھی خواتین کے اوچھے پن اور ظلم و بربریت کی تو وہ خواتین آٹے میں نمک کے برابر ہیں اور جو معدودے چند خواتینِ اس طرح کے مکروہ اور انسانیت سوز کارنامے انجام دینے میں آگے ہیں انھیں خواتین کہنا بھی عورت کی توہین کے زمرے میں آتا ہے.
خیر عورت کا مقام اور رتبہ اتنا بلند ہے کہ اللہ پاک نے جب انسانوں سے اپنی محبت
کو بیان کیا تو فرمایا کہ. میں ماوں سے بڑھ کر اپنے بندے سے پیار کرتا ہوں اور عورت کے مرتبے کو مزید بلند کیا جب انسانوں کو کہاکہ جنت تمہاری ماوں کے قدموں تلے ہے.
عورت کا وجود نہ صرف نسل انسانی کی بقا کے لیے ضروری ہے بلکہ کاینات کی رنگینی، خوبصورتی اور گہما گہمی کے لیے بھی اشد ضروری ہے . علامہ اقبال جیسے بڑے شاعر تک یہ فرما گیے ہیں کہ
وجود زن سے ہے تصویر میں رنگ
اسی کے سوز سے ہے زندگی کا سوز دروں
جس گھر میں بیٹی نہ ہو نہ اس گھر میں رونق ہوتی ہے نہ ہی اس گھر میں رحمت کے فرشتے اترتے ہیں،
لڑکیوں اور خواتین کے رنگے برنگے ملبوسات، لہراتے ہوے آنچل، میکسیاں،شرارے،غرارے، رنگ برنگے ہر ہیل کے جوتے اور جیولری، دوپٹوں کی رنگوای، شادی بیاہ پہ سونے چاندی کے زیورات کا خصوصی اہتمام، اور آج کل تو برایڈل مے کپ اور برایڈل شاور کے ساتھ ساتھ برایڈل فوٹو شوٹس جو کہ ہر فنکشن کی مناسبت سے علیحدہ علیحدہ رکھے جاتے ہیں اب یہ ہر خاندان کی صوابدید کہ وہ ایک نکاح کے لیے کتنے فنکشنز کے اخراجات کا متحمل ہو سکتا ہے، ایک بچی کو بننے سنورنے کے لیے سر سے پاوں تک سنگھار کی ضرورت ہوتی ہے اس عطاء سے بے نیاز ہے حوا کی بیٹی کہ اسے بنانے والے نے پہلے ہی حسن کی انتہا پہ حسین تر مخلوق بنا دیا.
تو استعارہ حسن و وفا
تو ہے نظارہ حسن و وفا
عورت کی یہی تعریف بنتی ہے کہ وہ سراپا الفت اور کاروان وفا کی سپہ سالار، بنا الفت اور وفا کے عورت صرف ایک طوائف کا سجا ہوا خوبصورت جسم ہے جسے ہر مرد اپنی جنسی تسکین کے لیے کچھ لمحات کے لیے خرید لیتا ہے اور خریدی ہوی چیز یا خریدا ہوا پل تو بس مجبوری کی ہی ایک قسم ہوتا ہے.
شاہ میر ایک کھاتے پیتے گھر کا بیس سالہ سپوت تھا، دولت اور جوانی کے خمار نے اسے بہکنے تو نہ دیا مگر پھر بھی محبت کی دیوی اس پہ کیسے مہربان ہوی اسے کچھ خبر نہ ہوی ہاں اسے مہک علی شاہ اتنی اچھی لگی کہ شاہ میر کا دل چاہا کہ وہ مہک علی شاہ کو کسی باربی ڈول کی طرح اپنے ڈراینگ روم کے کسی شو کیس میں سجا لے، شہابی چمکدار رنگت،گھنگھریالے لہریے بال جو پشت پہ کسی سایبان کی مانند پہرہ دیتے تھے، ستواں ناک اور اس میں چمکتی ہوی ہیرے کی لونگ.
نکلتا ہوا قد، مسکراتا ہوا چہرہ، ایسا چہرہ جس پہ کسی کا بھی دل آ جاے، اس پہ تہذیب اور تمیز کے گہنوں سے سجی سجای مہک علی شاہ پڑھای میں بھی ٹاپرز میں سے تھی، شاہ میر نے جب ایک انٹر کالجیٹ تقاریر کے مقابلے میں مہک علی شاہ کی فی البدیہہ، دھواں دھار تقریر اور فن خطابت کے جواہر دیکھے تو بات پھر شادی پہ ہی جا کے ٹلی، خیر زندگی آگے آگے اور بہت آگے بڑھ گءی دو بچے خوبصورت بیوی، تمیز دار بیوی، حیا دار بیوی، فرمانبردار بیوی کے ہوتے ہوئے بھی شاہ میر کو کبھی کسی کی بکھری، لہراتی ہوی زلفیں بھا جاتیں، کبھی کسی کے رخساروں کے ڈمپل میں دل کی دھڑکنیں اٹک جاتیں، کبھی کسی کی شیریں بیانی راتوں کی نیندیں اڑا لے جاتی، کسی کی خوش لباسی انھیں اپنی بیوی کی خوش لبادی سے بہتر لگتی، غرض بیچارہ شاہ میر ایک آسودہ اور پر سکون ازدواجی زندگی گزارنے کے باوجود بھی خالی کاسے کی طرح ادھر سے ادھر لڑ کھڑاتا ہی رہا اور بیوی سے وفاداری کے سلسلے میں ہمیشہ ضمیر کی عدالت کے سامنے سرنگوں ہی رہا.
مرد کے لیے کیا شے ہو عورت کے روپ میں کہ وہ ٹھہر جاے؟؟ ؟؟
صرف اور صرف ایک ہی عورت کا ہو جاے وفا داری میں نام کر جاے اور اپنے نام کے ساتھ جڑی ہوی
ہرجائی
بے وفا
سنگدل نامی تمام علتوں سے چھٹکارا پا جاے، تو یقین کر لیجیے ایسا ہونا تقریباً ناممکنات میں سے ہے مرد کو اگر کوی جنت کی حور بھی مل جاے یا اسے کوی انتہائی نفیس، خوبصورت، وفادار اور سگھڑ عورت کا ساتھ بھی میسر ہو پھر بھی اس کا دل کسی کی زلفوں، کسی کی گالوں کے ڈمپلز، کسی کی مسکراہٹ، کسی کی دھیمی آواز، کسے کے انداز نشست و برخاست میں الجھتا رہے گا مرد کے جینیاتی مادے کی ساخت ہی ایسی ہے اس کے ایکس اور واے کرومو سومز اسے ہمیشہ دوسری، تیسری اور چوتھی عورت کی ترغیب دیتے رہیں گے.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendrpunnam@gmail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International