Today ePaper
Rahbar e Kisan International

دولت اکٹھی کرنی چاہیےمگردفاع سےغفلت بھی نہیں برتنی چاہیے

Articles , Snippets , / Friday, February 14th, 2025

تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com

ایک خبر کے مطابق سال 2024 میں چارعرب ممالک کے شہریوں نے 167 ٹن سونا خریدا اور 2023 میں 180ٹن خریدا گیا۔سونے کی خرید و فروخت کوئی جرم نہیں بلکہ بہترین کاروبار ہے۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ اتنی معاشی لحاظ سے مضبوط ریاستیں اپنا دفاعی سسٹم بھی مضبوط رکھتی ہیں؟ایک طرف صرف سونا ٹنوں کے حساب سے خریدا جا رہا ہے اور دوسری طرف آگ اور خون کا کھیل جاری ہے۔لاشوں پہ لاشیں گر رہی ہیں اور شہر کے شہر تباہ کیے جا رہے ہیں۔سونا خریدا جائے،دیگر سازوسامان بھی خریدا جائے لیکن دفاع کی مضبوطی کے بارے میں بھی لازما سوچا جائے۔دولت ایک لازمی جزو ہےاور دولت کئی قسم کے مسائل چٹکی بجاتےہی حل کر دیتی ہے۔جہاں دولت سےکئی قسم کے مسائل حل ہوتے ہیں وہاں اسلحہ بھی خریدا جا سکتا ہے۔کیا تمام عرب ممالک کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں؟کیا وہ اس بات پہ مطمئن ہیں کہ مستقبل میں ان کو کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوگی؟ان کے پاس کون سی گارنٹی ہے کہ کوئی بھی طاقت ان ممالک کو نہیں روندے گی؟جن ممالک کے پاس دولت کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں لیکن ایسا اسلحہ موجود نہیں جن سے طاقتور دشمن سے مقابلہ کیا جائےتو ہر وقت خطرے کی زد میں ہیں۔کوئی بھی ریاست جو طاقتور ہو،معاشی طورہرمضبوط ریاستوں پر حملہ کر سکتی ہے کیونکہ اس کو دولت چاہیے ہوتی ہے۔کوئی ایسی ریاست بھی حملہ کر سکتی ہے جو ڈیفالٹ کی طرف جا رہی ہو لیکن دفاعی لحاظ سے مضبوط ہو۔جو ممالک دولت اکٹھی کر رہے ہیں لیکن دفاع سے غفلت برت رہے ہیں تو وہ ہر وقت خطرے کی زد میں ہیں۔ان پر کسی وقت بھی حملہ ہو سکتا ہے اور ان کی اپنی دولت ان سے لوٹی جا سکتی ہے۔اسلحہ کے علاوہ لڑاکا فوج بھی ہونی ضروری ہے تاکہ حملے سے دفاع کیا جا سکے۔اگر اسلحہ موجود ہے لیکن فوج ناکارہ یا بزدل ہے تو وہ بھی مقابلہ نہیں کر سکتی۔
ٹنوں کے حساب سے اکٹھا کیا گیاسونا یا دیگر دولت اس وقت ناکارہ ثابت ہوتی ہے جب حملہ ہو جائے۔بغداد جو اپنے وقت کی سپر پاور تھی اور اس پرجوبن آیاہواتھا۔بغداد پر ہلاکو خان نے حملہ کر دیا۔خلیفہ(بادشاہ)کو قید کر کے بھوکا رکھا گیا۔کچھ دنوں کے بعد بھوک سے بے تاب خلیفہ بغداد کے سامنےکپڑوں سے ڈھکے برتن لائے گئے۔بھوک سے بلبلاتے خلیفہ نے جب کپڑا اٹھایا تو وہ برتن ہیرےاور جوہرات سے بھرے ہوئے تھے۔ہلاکو خان نے حکم دیا کہ کھاؤ۔خلیفہ نے کہا میں ان کو کیسے کھا سکتا ہوں؟ہلاکو خان نے کہا اگر کھا نہیں سکتے تو ان کو جمع کیوں کیا؟اگر تم ان کو جمع کرنے کی بجائے ہتھیار خریدتے اور فوج بھرتی کرتے تو میں دریا کو پارنہ کر سکتا۔وہ دولت کے ڈھیر بغداد کو تباہی سے بچانے میں کسی کام نہ آسکے۔دولت کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے،لیکن اس کو استعمال بھی کرنا چاہیے۔دولت اگر ایک جگہ جمع پڑی رہے تو وہ کوئی نفع نہیں دیتی بلکہ گردش میں رہے تو فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔دولت کو ترجیح دینی چاہیے لیکن اسی دولت سے دفاع کا بھی انتظام کرنا چاہیے۔سابق اسرائیلی وزیراعظم گولڈا مائر کے زمانے میں امریکی سینٹ کی اسلحہ کمیٹی کا سربراہ اسرائیل آتا ہےکیونکہ اسرائیل کو اسلحہ خریدنا تھا۔اسلحے کے سلسلے میں گفتگو ہوتی ہےاور سودا طے پا جاتا ہے۔اس وقت اسرائیل اقتصادی لحاظ سے بدترین دور میں گزر رہا تھا۔اسرائیلی کابینہ کے سامنے جب یہ سودا رکھا گیا تو کابینہ نے یہ سودا رد کر دیا۔اسرائیلی وزیراعظم گولڈا مائر نےکابینہ اراکین کو کہاکہ آپ کا موقف درست ہےلیکن اگر ہم یہ جنگ جیت گئے تو تاریخ ہماری فتح کو یاد رکھے گی۔اسرائیل کی کابینہ نے بھی یہ سودا منظور کر دیا اور اسرائیل اب بھی اسلحے کے زور پرمشرق وسطی کے لیےڈراوناعفریت بنا ہوا ہے۔ایک چھوٹی سی ریاست پورے عرب کو دہشت زدہ کر رہی ہےتو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے پاس جدیداورخطرناک اسلحہ موجود ہے۔بعد میں گولڈا مائرسےواشنگٹن پوسٹ کے نمائندے نے اس کے بارے میں پوچھا تو اس نے جواب دیا۔میں نے یہ اپنے دشمنوں کے پیغمبر سے سیکھا۔جب حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نےوصال فرمایا تو آپ کے گھر میں دیا جلانےکے لیے تیل کی خریداری کےلیے رقم موجود نہیں تھی۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اہلیہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا نےزرہ بکتررہن رکھ کر تیل خریدا۔لیکن اس وقت بھی ان کے حجرے کی دیوار پر نو تلواریں لٹک رہی تھیں۔میں نے سوچاکہ دنیا میں کتنے لوگ ہوں گے جو مسلمانوں کی پہلی ریاست کی کمزور اقتصادی حالت سے واقف تھے،لیکن یہ جانتے ہیں کہ وہ فاتح تھے۔قرآن بھی حکم دیتا ہے”اور ان کے لیے جس حد تک کر سکو فوج اور بندھےہوئے گھوڑے تیاررکھو جس سے اللہ کے اور تمہارے ان دشمنوں پر تمہاری ہیبت رہے اور ان کے علاوہ کچھ دوسروں پر بھی جنہیں تم نہیں جانتے اور اللہ انہیں جانتا ہے”(الانفال)مسلمان ہوں یا کوئی دوسری قوم،اگردفاع سے غافل ہوتی ہےتو دشمن اس پر حملہ کر ہی دیتا ہے۔طاقتور ترین ریاستیں اسلحہ اکٹھا کرتی ہیں اور جدید تحقیقات بھی کرتی ہیں تاکہ جدیداسلحہ بنایا جا سکے۔جتنا اسلحہ خطرناک ہوگا اتنا ہی دشمن دہشت زدہ ہوگا۔
کئی ممالک اسلحہ کے ڈھیر لگاتے جاتے ہیں،حالانکہ وقتی طور پر دولت کا اسراف نظر آتا ہےلیکن وہ اسلحہ دشمنوں کے لیے خوف کی علامت ہوتا ہے۔اسلحہ اکٹھا کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ دوسروں کے خلاف بھی استعمال کیا جائے۔اگر استعمال کرنے کی ضرورت نہ ہو تو استعمال بھی نہ کیا جائے۔کئی ممالک کے بارے میں علم ہوتا ہے کہ وہ سونے کے ذخائر کے مالک ہیں،دولت اور دوسرے قدرتی ذخائر بھی بے پناہ ہیں،لیکن دفاعی لحاظ سے کمزور ہیں اور یہی کمزوری ان کوآزادی عطا نہیں کرتی۔ٹنوں کے حساب سے خریدا گیا سونا جنگ کے دوران کام نہیں آتا بلکہ ہتھیار کام آتے ہیں۔ٹنوں کے حساب سے سونے کے مالک ممالک پر جب ٹنوں کے حساب سےگولہ وبارود پھینکا جاتا ہےتو وہاں قیامت برپا ہوجاتی ہے۔اس وقت سونے کی بجائے اسلحہ کام آتا ہے۔دولت اکٹھی کی جانی چاہیےلیکن دولت کو اکٹھا کرنا کامیابی کی معراج نہیں ہوتی بلکہ اپنی حفاظت کرنا کامیابی کہلاتا ہے۔کہتے ہیں کہ دولت جہاں بہترین دوست ہوتی ہے وہاں دشمن بھی ثابت ہوتی ہے۔دولت پر قبضہ کے لیےدشمن حملہ کرتے ہیں اور یوں دولت ان کی دشمن ثابت ہوتی ہے۔دولت اکٹھی کی جائے لیکن دفاع کی بھی بھرپور تیاری ہونی چاہیے۔دولت کو تن آسانی کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے بلکہ اس کو دفاعی لحاظ سے مضبوطی کے لیےاستعمال کرنا چاہیے۔معاشی کمزوری بھی بہت سے مسائل پیدا کرتی ہے،درست طریقے سےدولت بھی اکٹھی کرنی چاہیےلیکن اس کا استعمال بھی بہتری کے لیے کرنا چاہیے۔کرنسی یا سونا دولت نہیں ہوتی بلکہ تیل،گیس،کوئلہ اور دیگر معدنیات بھی دولت میں شمار ہوتی ہیں۔طاقتور ممالک اپنی طاقت کے سہارے کمزور ممالک سے اپنی من مانی سےمقررکی گئی قیمت سےتیل اور دوسری اشیاء خریدتے ہیں۔اگر معدنیات کے مالک ممالک دفاعی لحاظ سے مضبوط ہوں تواپنی مرضی کی قیمت سے اشیا فروخت کر سکتے ہیں۔بہرحال دولت اکٹھی کرنی چاہیے لیکن دفاع سے بھی غفلت نہیں برتنی چاہیے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International