Today ePaper
Rahbar e Kisan International

دو صدیوں کا شاعر۔۔۔۔۔ اسد ظفر

Literature - جہانِ ادب , Snippets , / Wednesday, July 30th, 2025

rki.news

از: ڈاکٹر پروفیسر عبدالصمد نور سہارن پوری

ادب میں بعض شخصیات صرف تخلیق کار نہیں ہوتیں، وہ عہد ساز بھی ہوتی ہیں۔ ان کی تخلیقات نہ صرف وقت کا آئینہ ہوتی ہیں بلکہ آنے والے وقت کا چہرہ بھی تراشتی ہیں۔ اردو شاعری میں ایسا ہی ایک نمایاں نام سید اسد ظفر نقوی ہے، جو اسد ظفر کے قلمی نام سے جانے جاتے ہیں۔ جب ہم انہیں “دو صدیوں کا شاعر” کہتے ہیں تو اس سے مراد ایک ایسی ادبی شخصیت ہے جس کی فکر اور فن نے دو صدیوں کے سنگم پر جنم لیا، اور اس کا شعری سفر اکیسویں صدی کی تیسری دہائی تک بھی تازگی، توانائی اور فکری پختگی کے ساتھ جاری و ساری ہے۔اسد ظفر کا تعلق لکھنؤ کے ایک علمی و ادبی خانوادے سے ہے، جس کی بنیادوں میں نہ صرف علم و فضل بلکہ سخن وری کی روایت بھی شامل ہے، یہ ایسا خانوادہ ہے جہاں علم و ادب نہ صرف وراثت میں ملا، بلکہ زندگی کے طرزِ فکر و احساس میں رچا بسا ہے۔ ان کے دادا سید کلبِ احمد اپنے عہد کے ممتاز اور استاد شاعر تھے، جن کے اشعار آج بھی ریختہ جیسے نمایاں پلیٹ فارم پر محفوظ ہیں، جو ان کی شعری عظمت کا بین ثبوت ہے۔ ان کے بڑے بھائی پرویز نقوی بھی سخن کے رمز شناس تھے، جبکہ دوسرے بڑے بھائی علامہ حسن ظفر نقوی نہ صرف عالمِ دین کی حیثیت سے بین الاقوامی شہرت کے حامل ہیں بلکہ اردو شاعری میں بھی ایک معتبر نام ہیں۔ اس پس منظر سے صاف ظاہر ہے کہ اس خانوادے میں شاعری صرف اظہار کا وسیلہ نہیں بلکہ ایک تہذیبی ورثہ ہے، جو نسلاً بعد نسل منتقل ہوا ہے۔ یہ تمام شخصیات اس روایت کا حصہ ہیں جس میں شاعری ایک مقدس عمل کی حیثیت رکھتی ہے، اور اسی روایت کا جدید نمائندہ اسد ظفر ہیں۔
اسد ظفر ایک نہایت پُرکشش اور دلنشین شخصیت کے حامل ہیں۔ ان کی خوش مزاجی، زندہ دِلی اور یاروں سے بے پناہ محبت انہیں سب کا محبوب بنا دیتی ہے۔
اسد ظفر کی شاعری کلاسیکی اردو غزل کی بنیادوں پر استوار ہے، لیکن اس میں موجود احساسات، مشاہدات اور زاویۂ نظر خالصتاً جدید ہیں۔ ان کا کلام ان تمام رویوں کا حامل ہے جو اکیسویں صدی کے انسان کو درپیش ہیں، داخلی کشمکش، آگہی کا دکھ، تنہائی کا بوجھ، سماجی تضادات، فکری اضطراب اور شناخت کا بحران۔ ان کی زبان سادہ، شستہ اور رواں ہے مگر اس کے پس منظر میں گہری علامتیں اور معنی خیزی پوشیدہ ہے اسد ظفر نہ صرف ایک باکمال شاعر ہیں بلکہ ان کا ترنم بھی بےمثال ہے۔ جب وہ کوئی غزل ترنم کے ساتھ سناتے ہیں تو جیسے فضا میں سکون اُترنے لگتا ہے، ان کے لب و لہجے میں وہ سحر ہے جو دل کو چھو لیتا ہے اور محفل کو جادوئی بنا دیتا ہے۔

اسد ظفر کی شاعری محض جذباتی ردِ عمل نہیں بلکہ گہرے فکری پس منظر کی حامل ہے ان کے کلام میں وجودیت کا رنگ بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ وہ انسان کی داخلی تنہائی، سماجی بیگانگی اور ذات کے تضادات کو اس طرح بیان کرتے ہیں جیسے وہ قاری کا ذاتی تجربہ ہو۔ وہ قاری سے مکالمہ کرتے ہیں،ان کی شاعری میں علامتوں اور استعاروں کا استعمال اس مہارت سے ہوتا ہے کہ ایک سادہ لفظ بھی کئی پرتیں اپنے اندر سمو لیتا ہے۔ ان کا ہر مصرعہ اپنے اندر ایک مکمل منظر، کیفیت یا فلسفہ سموئے ہوتا ہے۔
ان کا اسلوب نہ صرف ادبی ذوق کو تسکین دیتا ہے بلکہ ذہنی جستجو کو بھی تحریک دیتا ہے۔ ان کے ہاں سادگی میں گہرائی اور خاموشی میں صدا کی جھلک ملتی ہے، جو کسی بڑے فنکار کی پہچان ہےاسد ظفر ان شعرا میں سے ہیں جنہیں صرف ان کے اشعار سے نہیں، بلکہ ان کے فکری تناظر سے جاننا ضروری ہے۔ وہ نہ صرف اپنے ماحول کے عکاس ہیں ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اردو غزل کے کلاسیکی سانچے کو تو توڑا نہیں، مگر اس میں نئے فکری مواد کو سمو کر اسے دورِ حاضر کی ایک زندہ صنف بنا دیا۔آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اسد ظفر صرف “دو صدیوں” کے شاعر نہیں بلکہ دو جہتوں کے شاعر بھی ہیں اسد ظفر کی شاعری وہ آئینہ ہے جس میں نہ صرف ایک شاعر کی ذات جھلکتی ہے بلکہ ہمارا عہد، ہمارے خواب، ہماری شکستیں، اور ہماری امیدیں بھی پوری وضاحت سے دکھائی دیتی ہیں۔
آخر میں اسد ظفر کے چند اشعار میری رائے کی دلیل کے طور پیش ہیں؛
کون سا آسمان ٹوٹ گیا ۔۔
بات اتنی ہے مان ٹوٹ گیا ۔۔
جانے کیسے ہلی یقین کی اینٹ ۔۔
اور سارا مکان ٹوٹ گیا ۔۔
تھیں خدا جانے ہجرتیں کیسی ۔۔
گھر کہاں خاندان ٹوٹ گیا ۔۔

“ہوگیا کارِ عبث خود کو چھپانا میرا ۔۔
ڈھونڈ لیتا ہے ترا درد ٹھکانہ میرا ۔۔”

“مسئلہ تھا تجھے بچھڑنے میں ۔۔
مسئلہ تیرا حل کیا میں نے ۔۔”

بارِ غم تا حدِ امکان اٹھایا ہم نے ۔۔
تم رہے نفع میں نقصان اٹھایا ہم نے ۔۔
چشمِ بے آب ترے قحط زدَہ پیالے میں ۔۔
جانے کیا سوچ کے طوفان اٹھایا ہم نے ۔۔

” راکھ ہونا ہی تھا اسکی تعبیر کو ۔۔۔
خواب کو لگ گئی آگ جب خواب میں ۔۔”

ہم سے مت پوچھ اسد عالمِ تنہائی کہ ہم ۔۔
اپنی لاش اپنے ہی کاندھے پہ اٹھائے ہوئے ہیں ۔۔

ڈوب جاؤں تو ابھرنا مجھے آتا ہے مگر ۔۔
میں سمندر کو پشیمان نہی کر سکتا ۔۔

پوشیدہ ہیں سات سمندر آنکھوں میں ۔۔
اشکوں کا سیلاب بہایا جا سکتا ہے ۔۔
ہوا نے سوکھے پتوں سے سرگوشی کی ۔۔
جھیل کنارے شور مچایا جا سکتا ہے ۔۔

زخم سے پوچھتا نہی کوئی ۔۔
وہ اذیت جو اندمال میں ہے ۔۔

“ملتی ہے کب ہر اک کو تعبیر اسد
پلکوں پر کچھ خواب ادھورے ہوتے ہیں”

“خون رِستا ہے میرے زخموں سے
فصل تیری لگان ہے تیرا “

“ہم غزل میں جو ترا نقش بنانے لگ جائیں
لوگ بے وجہَ ترے ناز اٹھانے لگ جائیں”

” پہلے کردار میں ڈھالا گیا میں
پھر کہانی سے نکالا گیا میں”

“اسلئے ہوں میں خسارے میں بہت
سوچتا ہوں ترے بارے میں بہت”

“اُس نے معیارِ وفا خوب کھنگالے مجھ میں
بن پڑا کچھ نہ تو پھر عیب نکالے مجھ میں”

“ڈھونڈتا پھرتا ہے لوگوں میں وفا میرے بعد ۔۔
وہ مجھے معرکہءِ عشق میں ہارا ہوا شخص”

“دوبدو جنگ لڑی آنکھوں نے ۔۔
اور اس جنگ میں مارا گیا میں”

“ختم شد کس نے لکھ دیا جانے
ابتدائے کتاب سے پہلے ۔۔”


One response to “دو صدیوں کا شاعر۔۔۔۔۔ اسد ظفر”

  1. Dr. Abdul Samad Noor says:

    بہت شکریہ۔ اسد ظفر صاحب واقعی کمال شاعر ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International