چوم لوں دینے والے ہاتھوں کو
زخموں کو لوری دیتی باتوں کو
میں اپنی آنکھوں میں چھپا کے رکھوں
چاند کو، چاندنی سی راتوں کو
چوم لوں دینے والے ہاتھوں کو
آگ دکھا دوں یا بہا دوں پونم
دنیا تیری میں سبھی گھاتوں کو
چوم لوں دینے والے ہاتھوں کو
تو وہ ہاتھ جو دینے والے ہوتے ہیں، وہ دل جو دوسروں کے غم میں موم رہتے ہیں اور وہ اشک جو دوسروں کی تکلیف میں بہتے ہیں، درحقیقت وہی ہاتھ، وہی دل اور وہی اشک، انسانوں کو انسانیت کے درجے پہ فایز کرتے ہیں. اور جب مشرکین سے جنگ کےوقت حضور پاک صل اللہ علیہ والہ وسلم نے صحابہ کرام سے مدد طلب کی اور پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا، عمر، اللہ اور اس کے رسول کے لیے کیا لاے ہوے اور اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑ آئے ہو تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا یا رسول اللہ آدھا سامان آپ صل اللہ علیہ والہ وسلم کے لیے لے آیا ہوں اور آدھا گھر والوں کے لیے چھوڑ آیا ہوں، پھر حضور پاک صل اللہ علیہ والہ وسلم نے غار یار، حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا، اے ابوبکر صدیق آپ کیا لاے اور کیا چھوڑ آے تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب میں جو کہا اسے ایک تاریخی مرتبہ حاصل ہے، ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا یا رسول اللہ میں اور میرے والدین آپ پر قربان میرے پاس جو کچھ تھا لے آیا ہوں اور گھر والوں کے لیے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ آیا ہوں،
سبحان اللہ
سبحان اللہ
سبحان اللہ
اسلام کو پھلنے پھولنے کے لیے کیسی کیسی بلند قد و قامت کی ہستیوں نے اپنا اپنا حصہ ڈالا اور رہتی دنیا تک کے لیے امر ہو گیے.
اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تو لقب ہی اپنی سخاوت کی وجہ سے غنی رکھا گیا تھا، اسلام کے پھلنے پھولنے میں جہاں انسانوں کا جذبہ ایمانی نقطہ عروج پر تھا وہیں پہ اللہ پاک نے چند اہل ثروت کو بھی رسول پاک صل اللہ علیہ والہ سلام کی مدد کے لیے وقف کر چھوڑا تھا جن میں خواتین میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والی خاتون حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ اور ذی النورین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سر فہرست ہیں. سبحان اللہ.
یہ وہ مبارک اور مقدس ہستیاں تھیں جن کے اپنے دینے والے ہاتھوں کو خبر نہ ہوتی تھی کہ کس کو کیا کچھ دان کر دیا، اور یہ انسانی ہمدردی کی معراج ہے کہ صدقہ، خیرات یا کسی مستحق کی مدد اس طرح سے کی جاے کہ دینے والے کے اپنے بایں ہاتھ کو اس کی خبر تک نہ ہو،
دان کرنے کے مختلف طریقے ہیں، ایک باپ اپنی اولاد کو جو بہترین شے دان کر سکتا ہے وہ ہے اچھی تعلیم و تربیت. کوی انسان، انسانیت کو اگر کوی اچھی شے دے سکتا ہے تو وہ ہے اپنے ہنر کو معاشرے کے لوگوں میں ایک غیر محسوس طریقے سے اس طرح بانٹ جانا کہ وہ لوگ ہنر مند بھی ہو جایں، بر سر روزگار بھی ہو جایں اور ہنر سکھانے والے کی بخشش کا سامان بھی بن جایں، پوری دنیا میں پھیلی ہوے جا بجا درسگاہیں جہاں پہ مختلف قسم کی مہارتیں، مہنگے داموں میں مختلف ڈگریوں یا ڈپلوموں کی شکل میں عطا کی جاتی ہیں اس مد میں نہیں آتے، اس نیکی کی جدوجہد اور کار خیر میں وہ چند نام شامل ہیں جنہوں نے اپنے مرنے سے پہلے اپنے تمام جواہر بھلے وہ علوم تھے، مہارتیں تھیں، ہنر تھے،علم و ادب کے جواہر تھے پوری ایمانداری سے دنیا کے لوگوں تک منتقل کر کے اللہ کے سامنے بھی سرخرو ہو گیے، اپنے سامنے بھی اور لوگوں کے سامنے بھی، دراصل یہی لوگ ہیں دینے والے ہاتھ. اور دینے والوں کی آزمائش اللہ پاک خوب کرتا رہتا ہے، جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کی محبت میں قربان کر دیا اور بیٹے نے، باپ کی محبت میں اپنے آپ کو اللہ پہ وار دیا، یہ دونوں ہی دینے والے ہاتھ تھے،
یہ دینے والے ہاتھ بڑے ہی خالص، پاک اور نیک ارواح والے لوگ ہوتے ہیں، یہ دراصل درویشوں کے قبیلے کے لوگ ہوتے ہیں ان کے دل بادشاہوں جیسے اور ادایں قلندرانہ ہوتی ہیں یہ ہمیشہ اپنی اچھی چیز دوسروں کو دے کر چین کی نیند سوتے ہیں، کبھی نہ روتے ہیں. ہنر تقسیم کرنے کے بعد دینے والوں میں پیار اور محبت دینا مقدم ترین فعل ہے، خلوص، مہر و وفا اور پیار اس کاینات پہ رب کعبہ کی وہ مہربانیاں ہیں جن کے بغیر کاینات کے رنگ پھیکے ہی رہتے، والدین اور خاص طور پر ماں کا بچوں کے لیے غیر مشروط پیار، دینے والوں کے قبیلے میں سب سے زیادہ مقدم اور خوبصورت ترین جذبہ ہے پھر بہنیں اپنے بھائیوں سے جو والہانہ پیار کرتی ہیں اپنی پاکٹ منی میں سے پیسے جوڑ جوڑ کر اپنے بھائیوں کے لیے تحائف خریدتی ہیں، گھر میں کچھ اچھا پکا ہوا ہو تو اپنے بھائیوں کے لیے رکھ چھوڑتی ہیں اور مجھے سب سے زیادہ ان دینے والوں پہ ترس آتا ہے جو اس دینا میں دینے والوں میں آتے تو پہلے نمبر پہ ہی ہیں مگر ان بیچاروں کا شمار نہ تین میں ہوتا ہے نہ تیرہ میں، جی اپ سمجھ ہی گیے ہوں گے یہ بیچارے عاشق نامراد قسم کے لوگ، ایسے ہی عاشق برادران کے لیے میرا ایک شعر ہے کہ
نام لے لے کے تیرا اے الفت
لوٹنے والوں نے کیا کیا لوٹا
گھروں کی مایں، دادیاں، نانیاں، پھو پھیاں، ماسیاں جو اپنے بچوں کو باتوں ہی باتوں اور کہانیوں ہی کہانیوں میں تعلیم و تربیت کے جو خزینے دان کر جاتی تھیں اب وہ خزینے سوشل میڈیا سے تو ملنے سے رہے کیونکہ لوگوں نے لوگوں کے ساتھ رہنا چھوڑ دیا ہے اور سوشل میڈیا سے ناتا جوڑ لیا ہے، شکر ہے ہم اس پیڑی کے لوگ ہیں کہ رشتوں کے خلوص سے تمام ہیرے جواہرات ہم نے سمیٹے اور انھیں اپنے آنے والوں تک منتقل بھی کر دیا ہے، الحمد للہ.
مجھے آج نسیم اختر تارڑ یاد آ رہی ہیں، عجیب درویش صفت خاتون تھیں ملازمین کو سب سے پہلے کھانا دیتیں، عید شبرات پہ ملازمین، رشتہ داروں کو بہترین کپڑے بنا دیتیں اپنی کبھی پروا ہی نہ تھی ہاں وہ اپنی درویشی میں بھی کسی ملکہ جیسی ہی دکھتی تھیں اور ملکہ کیوں نہ دیکھتیں، دینے والا ہاتھ تھیں اور دینے والا ہاتھ ہمیشہ لینے والے ہاتھ سے برتر ہوتا ہے. اور پھر مجھے ماہ پارہ یاد ا گءی وہ تیس سالہ مریضہ جس کی زبان میں تھوڑی سی لکنت تھی اور جسے کوی پیدایشی مسلہ بھی تھا اور اکثر میرے پاس علاج کے لیے آ تی رہتی تھی اس کے ساتھ اس کی بھاوج بھی ہوتی تھی، مجھے ان نند بھابھی کی جوڑی اور آپس کا پیار بہت بھاتا تھا، ایک دن میں فارغ تھی تو دونوں treatment کے لیے آ گییں، مہ پارہ کی بھابھی کے ابا جان چند دن پہلے انتقال کر گیے تھے، بھابھی اپنے باپ کو یاد کر کر کے اور ان کی خوبیاں بیان کر کر کے بار بار آبدیدہ ہو جاتی تھی وہ بنتا بھی تھا کہ ایک بیٹی باپ کو کھو کر جتنی بھی رنجیدہ اور کبیدہ خاطر ہو سکتی ہو، کم ہے مگر جب ماہ پارہ نے مرنے والے کے اوصاف بیان کرنے شروع کیے تو میری اپنی آنکھیں بھی نم ہو گییں، مہ پارہ نے کہا کہ انکل جب تک زندہ رہے جیسے عیدی اپنی سگی بیٹی کے لیے لاتے رہے ہو بہو ویسی ہی میرے لیے بھی لاتے رہے اور اس سال ان کی فوتگی کے بعد بھابھی کے بھای صاحب بھابھی کی عیدی لاے ہیں تو انھوں نے اپنے مرحوم باپ کی روایت کو زندہ رکھتے ہوے نند اور بھابی دونوں کی ایک جیسی عیدی بنای ہے، اور میرا دل بے ساختہ چاہا کہ ان دینے والے ہاتھوں کو چوم لوں جن کی وضع داری قد و قامت میں ہمالے سے بھی سر بلند ہے.
چوم لوں دینے والے ہاتھوں کو
زخموں کو لوری دیتی باتوں کو
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendrpunnam@gmail.com
Leave a Reply