مراد علی شاہدؔدوحہ قطر
صنف ادب کی سرخیل،غزل نے عصرِ حاضر میں اپنے دامن کو اس قدر کشادہ کر رکھا ہے کہ اس کی آغوش میں سماجی رویے،سیاسی انقلابی فکر اور لب و رخسار سب اسی کے دامن میں پناہ گزیں ہیں۔اگر یہ کہا جائے کہ غزل میں اب گل وبلبل،لب ورخسار،خم کاکل سے زیادہ بیان،اسلوب اور موضوعات میں سماجی رویے مسکن پذیر ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔کہ غزل اب دامن کشاں کئے ہر موضوع کو اپنی آغوش میں لینے کو تیار ہے۔باوجودیکہ غزل میں بات حسن وعشق کی ہو یاسماجی وانقلابی سوچ کی،پھول کی پتی کی سی نزاکت ولطافت یکساں عروج پر نہ ہو تو غزل،آزاد نظم سا تاثر دینا شروع کر دیتی ہے۔گویا غزل میں گل اندام کی سی نزاکت آفرینی بنا جو بچتا ہے وہ محض بے ترتیب مصرعوں کے کچھ بھی نہیں۔
ڈاکٹرحمید بھٹی شہیدغزل جیسی لطیف ادب سخن کے سخنور تو ہیں ہی ساتھ میں ڈاکٹر ہونا، غزل میں نفاست وطراوت کو دو آتشہ کر دیتا ہے۔کہ غزل گوئی ہو کہ پیشہ طب وجراحت ہر دو صورت میں،نشتر لفظی ہو کہ دھاتی،استعمال میں نزاکت و سلاست ازحد ضروری ہے وگرنہ دونوں کے غلط استعمال سے موت واقع ہو سکتی ہے۔اگرچہ ان کے ہاں روائتی اندازِ غزل کم کم ہی پڑھنے کو ملتا ہے تاہم وارداتِ قلبی،ہجرتوں کے دکھ اور مسلسل سفر وسیلہ ظفر کی صعوبتوں نے انہیں مضبوط سماجی رویوں کا شاعر بنا دیا ہے۔میاں چنوں سے انگلینڈ براستہ لاہور اور مہجری ادب کی سرخیل سرزمین ِ قطر میں سکونت اور اس دوران مشاہدات وتجربات،شہر بدری سے ملک بدری کی تکالیف ودشواریوں میں انہوں نے ایسے ایسے شعرتخلیق کئے کہ ایک ایک مصرع تارکین وطن کی دل کی آواز بن گیا۔
اجڑے ہوئے لوگوں کا کوئی گھر نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔وہ جسم تو رکھتے ہیں مگر سر نہیں ہوتا
ہم ستائے ہوئے بو جہل کے بے بس حبشی۔۔۔۔۔۔۔کیا سمجھتے ہو کہ بس شوق میں ہجرت کی ہے؟
بھلے بسلسلہ روزگار عمر کا زیادہ حصہ غیر دیار میں گزررہا ہے لیکن دل خستہ کا کیا کریں کہ ہمہ وقت اپنی مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو کو ترستا ہے۔یورپ کی بارش دل کے تار کیسے بھی چھیڑ چھیڑ جائے،لیکن تراب ِ وطن کی خوشبو کا مقابلہ گراں قیمت عطریات،مشک وعنبر اور عود وبخور میں کہاں۔یہ سب مبالغہ آرائی نہیں ایک ایسی حقیقت ہے جسے ڈاکٹر حمید بھٹی شہید نے اپنے مصرعوں کی زینت بار بار بنایا ہے۔
یہ بات بھی شک سے بالا تر ہے کہ جب کوئی بھی تخلیق کار معاصر سماجی صورت حال سے باخبر رہتا ہے تو یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ وہ ایک پختہ تخلیق کار ہے جو سماجی انسانی رویوں اور بنی نوع انسان کی انسانیت کا نبض شناس ہے۔ڈاکٹر حمید بھٹی کی شاعری کا تاثر اپنے قاری کو متاثر کئے بنا نہیں رہتا کہ یہ بھی ایسے ہی پختہ تخلیق کار ہیں جو مریض کی نبض شناسی میں ماہر نہیں بلکہ معاصر بیمار ولاغر ادبی وسماجی صورت حال کے بھی نبض شناس ہیں۔ان کے درج ذیل یہ دو شعر ہی حسب حال کو سمجھنے کے لئے کافی ہیں کہ
ہمارے وقت کے فرعون کو سزا دے کون؟
عدالتوں کے محافظ تو مر گئے ڈر سے
زبان بیچ دو حاکم کو اور عیش کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ بات کہہ بھی رہو ہو تو مجھ قلندر کو
ڈاکٹر حمید اپنے عہد کی ترجمانی ہی نہیں کرتے بلکہ خیالات کو لفظی پیرہن پہنا کر اپنی سخنوری میں حق وصداقت کی علمبرداری بھی کرتے ہیں۔وہ حرف بہ حرف سماجی فکر کو انقلابی رویوں میں تبدیل کرنے کے درپے نظر آتے ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ سماجی انقلاب کا فکرِ آغاز عدم مساوات،معاشی ناانصافی دراصل انسانیت کی دشمن ہیں۔انہیں عدم مساوات پر ان کا قلم شعلہ بیانی سے باز نہیں آتا۔وہ جب بھی اپنے ملک میں بالا دست کی زیر دست پر ظلم وبربریت کا بازار گرم کرتے اپنی حکمرانی کے تسلط کو برقرار رکھتے ہوئے،پیداواری عمل میں استحصالی ناانصافیوں کو محسوس کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو بے اختیار ان کے قلم سے سرخ لفظی خون رستا دکھائی دینے لگتا ہے۔
آج مزدور کے بچے کو جو روٹی نہ ملی اس کا باعث میرے گاؤں کی حویلی نکلی
خون رستا ہے تیرے لقموں سے کس سے چھینے ہوئے نوالے ہیں
حاکم وقت نے یہ آج شکائت کی ہے میں نے کیوں ظلم کی رسموں سے بغاوت کی ہے
روز مرتا ہے مرے شہر میں بھوکا کوئی روز کہتے ہو کہ جزیہ بھی یہیں پر رکھ دو
زمانہ میں آپ کا واسطہ ضمیر فروش،ادب فروش،جسم فروش،قلم فروش ایسے کئی فکر وفلسفہ کے متحمل لوگوں سے پڑا ہوگا جن کو یہ زعم ہوتا ہے کہ وہ اپنے ضمیر کی آبیاری کر رہے ہیں حالانکہ ضمیر فروشی ہی ان کا مقصد و مقدر ہوتا ہے۔لیکن ڈاکٹر حمید بھٹی کی شاعری پڑھ کر انہیں ؛ضمیر جھنجھوڑ؛ کا لقب عطا کرنے کو دل چاہتاہے۔اس لئے کہ اپنے یکتا ہنر سے خوابیدہ قوم کو جگانا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ڈاکٹر حمید میں یہ فن کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے کہ وہ لفظوں کی ساحری کا ایسا جادو جگاتے ہیں کہ قاری ان کے سحر میں جھوم جھوم جاتا ہے۔
اس شہر کا قاضی بھی اپاہج ہے کہ اس سے انصاف کا پلڑا ہی برابر نہیں ہوتا
اپنے بھی گریبان میں جھانکو ذرا واعظ کیوں تیرا کہا اتنا موثر نہیں ہوتا
توحید کا انکار الگ بات ہے مفتی ہر شخص تو اسلام سے باہر نہیں ہوتا
بیچ دیتا ہے ملک جب چاہے
کس کے ہاتھوں میں میرا پرچم ہے
Leave a Reply