rki.news
ذکر کہتے ہیں بولنے کی عادت و صلاحیت اور فکر نام ہے سوچنے کی طاقت اور سمجھ کا۔
ہر انسان کے اندر ذکر اور فکر کی صلاحیت ہوتی ہے مگر کوٸی اس کو بیدار کرلیتا ہے کوٸی نہیں۔
محنت اور غور وفکر کے نتیجے میں کیونکہ بحیثیت انسان یہ سب صلاحیتیں ہمیں ودیعت ہوئی ہیں بس کوشش کرکے اور علم کے ذریعے اپنے اندر اُجاگر کرنی ہوتی ہیں۔
ذکر چاہے دل سے ہو یا زبان سے اس سے مراد اللّہ کو یاد کرنا اور ہر لمحہ اپنے آپ کو ذکر میں مشغول رکھنے کی کوشش کرنا ہے۔
ذکر کی اقسام دو ہوتی ہیں۔۔۔
1-لسانی ذکر (جس میں زبان سے ذکر کرنا شامل ہے)۔
2-قلبی ذکر (جس میں دل یاد الہٰی میں مشغول رہتا ہے )۔
ذکر کی عادت انسان کی روح کو جلا بخشتی ہے اور اس عادت سے انسان اللّہ کے قریب ہوجاتا ہے۔
ساری کائنات اللّہ کا ذکر کرتی ہے تو ہم پر بھی لازم ہے اللّہ ربُ العزّت کا ذکر اپنا مقصد سمجھ کر کرتے رہیں۔۔اللّہ پاک نے کلمے کی نعمت عطا کی ہے، ہمیں چاہیے کہ اس نعمت کی قدر کریں اور اپنی زبان پر اسے رواں رکھیں۔ یہ بھی ذکر کرنے کا ایک اعلیٰ طریقہ ہے۔یہ ذکر اتنا قیمتی ہے جو ہمیں دنیا و آخرت دونوں جگہ سرخروئی دلا کر جنّت میں اعلیٰ مقام عطا کر واسکتا ہے۔اس لئے ہمیں چاہیے کہ اپنے لبوں کو اللّہ کے ذکر اور کلمے سے سدا تر رکھیں۔
صلٰواۃ کو بھی ذکر کہا گیا ہے اور صلٰواۃ کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ اسے ذکرِ الہٰی کے لئے قائم کیا جائے۔۔۔
ذکر کا مقصد قرآن کی طرف لے جانا بھی ہے
قرآنِ کریم کی تلاوت اور اس کو سمجھنا بھی ذکر کے اعلیٰ درجات میں شمار ہوتا ہے۔ہمیں اپنے معمولات میں روزانہ قرآنِ کریم کی تلاوت ضرور شامل رکھنی چاہیے تاکہ ذکر کے فوائد کو اور زیادہ بہتر طور پر حاصل کیا جاسکے۔
اللّہ ربُ العزّت قرآن میں فرماتے ہیں “میرا ذکر کرو میں بھی تمہارا ذکر کروں گا اور کفرانِ نعمت نہ کرو۔”
اب آتے ہیں فکر یعنی تفکّر کی طرف۔۔۔انسان کی جو غور وفکر کرنے کی صلاحیت ہے وہ دراصل شعور ہے۔قرآن پاک میں اللّہ تعالیٰ بار بار تفکّر کی دعوت دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں پر غور کیا جائے۔۔۔
گہرائی میں فکر کرنے کو تفکّر کہا جاتا ہے۔
انسان کو فکر کی گہرائی عطا کی گئی ہے اور شعور سے بھی نوازا گیا ہے بس کوشش کر کے اپنی اس صلاحیت کو بیدار کرنا چاہیے۔۔
کائنات میں گھڑی بھر کا تفکّر سال بھر کی عبادت سے بہتر ہے۔ جن قوموں نے کائنات پر تفکّر کیا وہ سر فراز ہوئیں اور جن قوموں نے کائنات پر تفکّر سے رشتہ نہ جوڑا وہ اقوامِ عالم میں مردہ قومیں بن گئیں۔۔۔
قرآن سائنسی فارمولوں کی دستاویز ہے جس کی آیاتِ مقدسہ پر غور وفکر کر کے ہم یہ کائنات تسخیر کر سکتے ہیں
اور کائنات پر حکمرانی کر سکتے ہیں۔قرآن پاک پر ارشاد کے مطابق تسخیرِ کائنات ہی ہمارا ورثہ ہے۔
ہمیں اپنا ورثہ اپنانے کی کوشش کرنی چاہیے اور اپنی آنے والی نسل کو بھی اس سے روشناس کروا کر علم و عمل کے دریچے کھلے رکھنے چاہیں۔
یہیں سے تفکّر کی ابتدا ہوتی ہے۔علم سے روشناسی کے ذریعے قوم کو تفکّر کے مدارج تک لے آنا چاہیے ، جہاں سے کائناتی علوم کے راستے ہمارے سامنے کھل سکیں اور ہم اپنے تفکّر اور تدبّر کے ذریعے اس کائنات کے حقیقی وارث بن سکیں جو کہ اصل میں ہماری میراث ہے
بقول راقم۔۔
ذکر سے اپنے لب تر کر لو
فکر سے اپنے دامن بھر لو
یہ میراث ہماری ہی ہے
ہر صورت میں حاصل کرلو
ثمرین ندیم ثمر
دوحہ قطر
24 – 5- 25
Leave a Reply