Today ePaper
Rahbar e Kisan International

رابندر ناتھ ٹیگور اور البرٹ آئین اسٹائن مشرق و مغرب کے علمی روابط

Articles , Snippets , / Wednesday, August 6th, 2025

rki.news

تحریر : عشرت معین سیما

گذشتہ دنوں آسٹریلیا سے آئے ہوئے اپنے مہمانوں کو ہم آئین اسٹائن کے سمر ہاؤس یعنی موسم گرما کی قیام گاہ “ کپوت “ لے کر گئے جو برلن سے ملحقہ ایک سر سبز و شاداب علاقہ ہے اور جہاں دریائے اسپرے اپنی پوری شادابی اور رونق کے ساتھ گزر کر اس مقام کو سیاحوں کی دلچسپی کا باعث بنا رہا ہے۔ اس علاقے میں داخل ہوتے ہی خیال آیا کہ کبھی یہاں معروف سائنسدان آئن سٹائن اور ناقابل فراموش مفکر و شاعر رابندر ناتھ ٹیگور کی آپس میں ملاقات ہوئی تھی۔ آئن اسٹالین کے سمر ہاؤس میں ان دونوں کی تصویر بھی یادگار کے طور پر ایک کتاب میں موجود تھی۔ ٹیگور بنگلہ زبان کے بہت بڑے مفکر اور شاعر تھے۔ اُن کی فلسفیانہ سوچ آج بھی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ اسی بنیاد پر ٹیگور کو عالمی نوبل انعام بھی نوازا گیا تھا۔ جرمنی میں ٹیگور امن و محبت کا استعارا ہیں اور یہاں دارالحکومت برلن میں ان کے نام پر ایک سڑک بھی موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جرمنی میں کئی لوگ جانتے ہیں کہ ٹیگور جرمنی میں علمی و ادبی حلقے میں ایک نمایاں شناخت کی حامل شخصیت ہیں۔
ٹیگور کے تمام مقالے اور تراجم جو انہوں نے انیس سو بیس سے انیس سو تیس کی دہائی میں پیش کئے وہ بہت زیادہ مقبول ہوئے۔ اُن کے لیکچرز کے زریعے جرمن ادب میں رومانوی فکر کے رجحانات کو بھی بدستور زیر بحث لایا گیا اور فنومنولوجی کے حلقے میں بھی موضوع بحث بنایا گیا۔ جرمن دانشوروں نے ٹیگور کی “روحانی انسانیت” کو مغرب کی سائنسی اور مادہ پرست فکر کے لیے ایک متوازن نقطہ نظر کے طور پر دیکھا اور سمجھا۔
رابندر ناتھ ٹیگور اور جرمن مفکرین کے مابین مکالمات اور خطوط کے حوالے سے بھی تاریخی شواہد موجود ہیں۔ اگرچہ ٹیگور نے زیادہ تر ذاتی ملاقاتوں کی بجائے لیکچرز اور خطوط کے ذریعے جرمنی کی علمی دنیا پر اثر ڈالا، تاہم کئی جرمن مفکرین اور ادیبوں کے ساتھ ان کا فکری تبادلہ قابلِ ذکر ہے۔ جن میں ٹیگور کا ۱۹۲۱ اور ۱۹۲۶ کا دورہ جرمنی بہت یادگار اور اہم ہے۔ ٹیگور نے اپنے اس جرمنی کے دورے میں برلن، ہمبرگ اور کئی اہم شہروں کی جامعات میں اپنے تحقیقی و علمی مقالے پیش کئے اور اپنے اِن لیکچرز میں روحانیت پسندی اور رومانوی تحریک کو بھی فلسفے کی مد میں شامل رکھا۔ ٹیگور کے لیکچرز کو سننے کے لیے جرمنی کے کئی علاقوں سے طلبہ و طالبات سمیت ادیبوں اور فلسفیوں نے شرکت کی اور علمی و فکری تبادلہ خیالات بھی کئے۔
جب ٹیگور یورپ میں لیکچر ٹور پر تھے تو ۱۹۳۰ میں آئن سٹائن کی دعوت پر وہ ان کے گھر گئے۔ یہ ملاقات ریکارڈ کی گئی اور بعد میں شائع بھی ہوئی۔ آئن سٹائن اور ٹیگور کی ملاقات اور ان کے درمیان ہونے والی فلسفیانہ گفتگو حقیقت، انسانیت، اور علم کی نوعیت کے بارے میں تھی۔ یہ گفتگو مشرقی روحانیت (ٹیگور) اور مغربی سائنسی عقلیت (آئن سٹائن) کے درمیان ایک شاندار فکری پل سمجھی جاتی ہے۔
البرٹ آئین اسٹائین نے بھی اسی حوالے سے اپنے نظریات ٹیگور کے فلسفے کے جواب میں پیش کئے جب کہ آئین اسٹائن فلسفی نہیں تھے بلکہ ایک سائنسدان اور ماہر طبیعات تھے۔ لیکن اُن کے ساتھ ٹیگور کی یہ گفتگو محض سائنسی یا فلسفیانہ مکالمہ نہیں بلکہ دو مختلف فکری زاویوں کے مابین ایک مکالماتی گفتگو تھی۔ جس کے بعد بذریعہ خطوط بھی اُن دونوں کے مابین یہ فکری مکالمے جاری رہے۔
ٹیگور کا فلسفہ نیچر آف ریئلٹی یعنی “ فلسفہ حقیقت” اور آئین اسٹائن کا سائنس کے حوالے سے اس فلسفے کو جانچنا کئی اساتذہ اور طالبعلموں کے لیے دلچسپی کا باعث رہا۔ ٹیگور اور آئن سٹائن کی گفتگو میں آئن اسٹائن نے کائنات کی “آفاقی حقیقت” پر بحث کی۔ جب کہ ٹیگور نے حقیقت اور انسانی شعور کو موضوع گفتگو بنایا۔ جب کہ آئین اسٹائن کا کہنا تھا کہ حقیقت انسانی ادراک سے ماورا ہے۔ اِن دونوں مفکرین کے مابین یہ مکالمہ بعد میں جرمنی میں فلسفیانہ حلقوں میں زیرِ بحث رہے۔
بعد ازاں ٹیگور نے جرمن مفکرین کے ساتھ مکالمے اور خط و کتابت کے ذریعے دو بڑے تصورات پیش کیے جن کے بنیادی نکات “ مشرقی روحانیت “ اور “ مغربی سائنسی فکر کا امتزاج اور آفاقی انسانیت و فنون میں ہم آہنگی “ تھے۔
ٹیگور کے فلسفے کا نکتہ “نیچر آف رئیئلٹی “یا حقیقت اس بنیاد پر تھا کہ
“ حقیقت انسان سے الگ کوئی شے نہیں۔ یہ انسانی شعور اور تجربے کا حصہ ہے۔ جو ہم محسوس اور ادراک کرتے ہیں، وہی حقیقت ہے۔”
جب کہ اس کے جواب میں آئین اسٹائن نے کہا کہ
“میں نہیں مانتا۔ حقیقت انسانی تجربے سے آزاد موجود ہے۔ اگر انسان موجود نہ بھی ہو تو چاند اپنی جگہ موجود ہوگا۔”
اُن دونوں صاحبان فکر کی گفتگو سے یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ یہاں آئن سٹائن “آبجیکٹیو ریئلٹی” پر زور دیتے ہیں جبکہ ٹیگور “ریلیٹو ریئلٹی” کی بات کرتے ہیں۔
دوسرا اہم نکتہ جو ٹیگوراور آئین اسٹائن کے مکالمے میں فلسفہ دانوں کی نظر میں اہمیت کا حامل بنا وہ کائینات کی ہم آہنگی کے حوالے سے ہے ۔ ٹیگور کہتے ہیں کہ
“ یہ کائنات عظیم “ہمارا ایک کائناتی شعور” (Cosmic Mind) ہے، اور انسان ابتدا سے اس میں شریک ہے”
جب کہ آئین اسٹائن کا کہنا ہے کہ
“ یہ کائنات ریاضیاتی قوانین کے تحت چلتی ہے اور انسانی شعور ان قوانین کو دریافت کرتا ہے، پیدا نہیں کرتا”
آئینہ اسٹائین اور ٹیگور کے اس فلسفے کے نکات کوجرمنی میں بہت اہم مانا گیا۔اس کے علاوہ تیسرا اہم نکتہ اِن صاحبانِ فکر نے کائنات کی جمالیات اور سائنسی علوم کے حوالے سے پیش کیا۔ جس میں ٹیگور نے اپنا نظریہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ “ فن اور موسیقی کائنات کی ہم آہنگی کو ظاہر کرتے ہیں، یہ حقیقت کو محسوس کرنے کا ایک اور طریقہ ہیں”
جب کہ آئین اسٹائن کا کہنا تھا کہ
“سائنس حقیقت کی زبان ہے”
لیکن اس کے باوجود آئین اسٹائن ٹیگور کی جمالیاتی فکر سے متفق تھے کہ کائنات میں ایک “آرڈر” (Order) موجود ہے جو خوبصورتی سے جڑا ہوا ہے۔
ٹیگور اور آئین اسٹائن کے مابین یہ فلسفانہ گفتگو محض ایک سائنسی یا فلسفیانہ مکالمہ نہیں بلکہ دو مختلف فکری زاویوں کے مابین ایک مکالمہ تھا جو آج بھی فلسفے اور جدید علوم میں بھرپور طور پر تسلیم کیاجاتا ہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International