Today ePaper
Rahbar e Kisan International

راز کی بات ہے شہرت تیری

Articles , Snippets , / Wednesday, February 5th, 2025

بے شک وہ پاک ذات جو ہر ذی نفس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے، وہ جس کے قبضے میں ہر ذی روح کی
جان ہے، وہ جو سب کا پالن ہار ہے، وہ جو سب کے نفع و نقصان کا ذمہ دار ہے، وہ جو دن کو رات اور رات کو دن کرتا ہے، وہ جو کہکشاوں کی تجلی اور موسموں کے بانکپن کا رکھوالا ہے وہ جو ہر جاندار کا رازق ہے وہ جو بیماروں کو شفا دیتا ہے اور جس کے ہاتھ میں ہماری زندگی اور موت کے فیصلے ہیں وہ جس کے کن کے منتظر ہے تمام کاینات کی راجدھانی.
غور فرمائیے گا ایک ہی ماں کی کوکھ سے جنم لینے والے کتنی مختلف تقدیر کے ساتھ اس دنیا میں آتے ہیں، کوئی تخت نشین ہو جاتا ہے اور کوئی جھگی واسی ہی رہ جاتا ہے.
بے شک عزت، شہرت اور دولت اللہ ہی کی دین ہیں وہ جسے چاہے تخت طاوس عطا کر دے اور جسے چاہے روٹی کے لقمے کو بھی ترسا دے، اور یہ سب اللہ پاک نے کاروان حیات کی روانی کے لیے رکھا اگر سارے ہی معاشی طور پہ ایک حیثیت کے ہوتے یا سماجی رتبے سب کے ہی ایک جیسے ہوتے تو کاینات کا نظام رک جاتا لوگ ہاتھوں پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے، یہ اونچ نیچ، رب کائنات کی تدبیروں میں سے ایک تھی.
یہ بات غور طلب ہے کہ بنی نوع انسان کے لیے شہرت کی کیا اہمیت ہے؟
کیا شہرت بھی انسان کے لیے اتنی ہی ضروری ہے جتنا سانسوں کی روانی؟
کیا شہرت بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنا کہ کھانا پینا، پہننا اوڑھنا اور دوسرے لوازمات زندگی؟
یہ ایک بحث طلب اور غور طلب مسءلہ ہے جس میں پڑنے کی بجائے یہ بتانا زیادہ مناسب ہے کہ بھلے شہرت، دیگر لوازمات کی طرح انسانی حیات کے لیے ضروری نہیں ہے مگر پھر بھی ہر زندہ انسان، اپنی پوری زندگی اسی تگ و دو میں گزار دیتا ہے کہ اس کا نام ہو، اس کی شان ہو، اس کی آن بان ہو، کاروبار حیات میں اس کا ایک خاطر خواہ مقام ہو، اور یقین مانیے یہ شہرت کی دیوی ہر کسی پہ مہرباں نہیں ہوتی یہ بھی من و سلویٰ کی طرح اللہ پاک کے منتخب کردہ لوگوں پہ اترتی ہے اور پوری دنیا ان کے گن گانے لگتی ہے عام لوگوں میں جو شہرت کی بلندیوں تک پہنچتے ہیں سیاست دان، فنون لطیفہ سے منسلک لوگ جیسے، اداکار، گلوکار، ادیب، شاعر وغیرہ وغیرہ. اور خاص مشہور لوگوں میں پیغمبر، رسول، نبی، ولی اللہ، درویش، سادھو، قلندر شامل ہیں جو اپنی عبادات اور عجز و نیاز میں عام لوگوں سے بڑھ کر ہوتے ہیں اور اللہ پاک کے نزدیک ان کا بڑا رتبہ اور مقام ہوتا ہے ایسے نیک بزرگ تاریخ کے صفحات پہ تو درج ہوتے ہی ہیں یہ اپنے اچھے اعمال کی بدولت اپنے اپنے زمانے کے عام لوگوں کے لیے سرچشمہ ہدایت اور مشعل راہ ہوتے ہیں اور ان نیک اور چنے ہوے لوگوں کے نام روز آخر تک عزت اور تکریم سے لیے جاتے رہیں گے.
ایہہ داتا صاحب دی دھرتی اے
ایہہ بلھے دا دربار بھلے
ایہہ گنج فرید دی دھرتی اے
یا سہیون سرکار بھلے
ایہہ نام نیں اچیاں شاناں دے
ایہہ وسن صبح شام بھلے
ہر شخص اپنے نام کے ستارے کے ساتھ دنیا میں طلوع ہوتا ہے، اپنے حصے کے گرم سرد، اپنے حصے کے دکھ سکھ برداشت کرتا ہوا اپنے نام کے ستارے کے ساتھ ہی غروب ہو جاتا ہے.
عرب میں بڑے بڑے قبایل کے بڑے بڑے لوگ سر پٹختے رہ گیے کہ محمد صل اللہ علیہ والہ وسلم میں کیا خاص بات تھی جو اللہ پاک نے انھیں آخری نبی جیسے اہم ترین منصب کے لیے چن لیا. یہ اس مالک کے فیصلے، اس رب کاینات کی اپنے رسول صل اللہ علیہ والہ وسلم سے اظہار عقیدت اور محبت کہ آخری نبی ہونے کی سعادت صرف اور صرف آمنہ کے لعل کے حصے میں لکھ دی گءی. اور اس سعادت پہ ہم اللہ پاک کا شکر تو ادا کر سکتے ہیں سوال نہیں اٹھا سکتے. کیونکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ تقدیر بھلے اچھی ہو یا بری من جانب اللہ ہوتی ہے. تو جو عزت اللہ پاک نے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صل اللہ علیہ والہ وسلم کے حصے میں رکھ دی وہ کسی اور کے حصے میں نہ آ سکی.
اب آجاتے ہیں اداکاری کے جوہر دکھانے والوں کی طرف ان میں سے کچھ بیچارے تو ساری عمر اپنے آپ کو منوانے کے چکر میں ایکسٹرا سے آگے ایک قدم بھی نہیں رکھ پاتے اور کچھ اپنی ایک ہی جھلک عوام کو دکھا کر سٹار بن جاتے ہیں. دولت اور شہرت کی دیوی ان پہ اس طرح مہربان ہوتی ہے کہ وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتے.
شہرت دو طرح کی ہوتی ہے اچھی نیک نامی والی شہرت یعنی ہیرو والی شہرت یا بدنامی والی شہرت یعنی ولن والی شہرت،
سچی بات تو یہ ہی ہے کہ ہر ماں اپنے بچے کو نیک نامی سے ہی بلندی کی سیڑھیوں پہ چڑھتے دیکھنا چاہتی ہے، بدنامی والی شہرت سے ہر کوی ہی پناہ مانگتا ہے، مگر آج کل کچھ ہوا اس طرح کی چل پڑی ہے کہ بد اور بدنام لوگوں کی عزت بھی زیادہ ہے اور شہرت بھی یعنی،
جنا لچا اونا ای اچا
مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ جب میرا ایڈمیشن فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی میں ہوا اور میں پہلے دن کالج گیی تو کیا دیکھتی ہوں کہ گاڑیوں کے شیشے ٹوٹے پڑے ہیں، چند طالبات ڈنڈے لیکر ہڑتال کر کے بیٹھی ہوئی ہیں، بھاگم دوڑ مچی ہوی ہے، چند پولیس والے بھی بیچ میں اپنی کاروائی میں مصروف ہیں، پوچھنے پہ معلوم ہوا کہ ایک دوسرے سال کی طالبہ جن کے والد صاحب کابینہ کے وزیر ہیں کو ایگزام میں فیل کر دیا گیا ہے لہذا احتجاجاً پروفیسرز کی گاڑیوں کے شیشے توڑے جا رہے ہیں اور ہڑتال کی جارہی ہے جناب نہ اس کے بعد اس طالبہ نے کبھی پڑھا اور نہ کسی پروفیسر نے اسے سپلی دینے کی جرات کی، وہ محترمہ نہ صرف ڈاکٹر بنیں بلکہ مشہور سرجن بھی بنیں اور انھیں بین الاقوامی سطح پہ ایک اچھی سرجن کے طور پہ پذیرائی بھی حاصل ہے تو ان کے ساتھ پڑھنے والی خواتین ڈاکٹرز جو پڑھ پڑھ کر ہلکان ہوتی رہیں، شہرت کی اس اڑان تک نہ پہنچ سکیں جو سرجن صاحبہ کے حصے آی تو لامحالہ یہ شہرت یہ عزت اللہ پاک کی عطا ہے
سرجن ابرار نیازی ایک غریب گھر کا چشم چراغ بھوکے پیٹ اور گھسی ہوی شرٹ کے ساتھ بھی سرجن بن گیا ماں کے گہنے بیچ کے ڈسٹرکٹ ہاسپٹل میں ڈپٹی ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر تعینات تو ہو گیا مگر اس نے علاقے میں چلنے والے کلینکس اور ڈاکٹر حضرات کا جینا اس طرح سے دوبھر کر دیا ہے کہ توبہ استغفار. اس کی گود میں بیٹھ کر عطای ڈاکٹرز لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں مگر چونکہ وہ سرجن صاحب کو معقول بھتہ باقاعیدگی سے ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو پہنچا دیتے ہیں لہذا انھیں انسانی زندگیوں سے کھلواڑ کی مکمّل آزادی ہے ہاں کوالیفائیڈ ڈاکٹرز جو اس بے ہدایتے، رشوت خور کو بھتہ دینے سے انکاری ہیں ان پہ خواہ مخواہ کے الزامات لگا کر یہ حضرت اللہ جانے کس کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور اپنی شہرت میں کس قسم کا اضافہ کر رہے ہیں. اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اورآپ سب کو اس سستی شہرت سے بچا کے رکھے.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendrpunnam@gmail,com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International